الیکشن لڑنا بنیادی حق ہے، بغیر قانون کیسے محروم کیا جا سکتا ہے،سپریم کورٹ
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن لڑنا بنیادی حق ہے، بغیر قانون کسی کو کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے علیحدہ علیحدہ کیسز کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس میں عدالت عظمیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم کو سپریم کورٹ نے انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی۔ عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی 9 مئی کے مقدمات میں مفرور ہونے کی بنیاد پر مسترد کیے تھے تھے۔عدالت نے کہا کہ الیکشن لڑنا بنیادی حق ہے۔ مفرور شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا بتا دیں کہاں لکھا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بغیر قانون کسی کو بنیادی حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے آنے والے درخواست گزار کی اہمیت نہیں، عوام کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ احتساب عوام نے کرنا ہے الیکشن کمیشن نے نہیں۔
کیس کے مخالف فریق نے دلائل میں کہا کہ عمر اسلم اسکروٹنی کے وقت بھی موجود نہیں تھے جب کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز کاکام مکمل ہو چکا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 87 خوشاب سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔انتخابات لڑنے سے متعلق ایک دوسرے کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے رہنما طاہر صادق کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔طاہر صادق نے قومی اسمبلی کے این اے 49 اٹک سے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں اور انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے طاہر صادق کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے تھے۔سپریم کورٹ نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 19 سے پی ٹی آئی رہنما محمد عارف عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا معاملہ میں الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کردی۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار نے 2 فوجداری مقدمات ہونے کے باجود ضمانت کے لیے کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ درخواست گزار نے دونوں مقدمات کا کاغذات نامزدگی میں بھی ذکر نہیں کیا۔ ریٹرننگ آفیسر نے بیٹے کی لندن میں موجود جائدادوں کا پوچھا اس کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ ریٹرننگ آفیسر نے نامزدگی پر اعتراض اٹھا کر کاغذات مسترد کیے۔ درخواست گزار کے خلاف وارث خان تھانے میں 2 ایف آئی آرز درج تھیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دستاویزات تو پڑھ کر آئیں، کیس چلانا ہے تو فیکٹ بتائیں۔ جسٹس منصور علی مظہر نے کہا کہ جس شخص کیخلاف 2 فوجداری ایف آئی آرز ہوں، وہ پورے شہر بھر میں گھوم رہا ہے۔ ضمانت کے لیے ٹرائل کورٹ جانے میں آپ کو مسئلہ کیا تھا؟۔ آپ نے کاغذات نامزدگی میں فوجداری مقدمات کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہمارے پاس ایک کیس تھا انہوں نے ضمانت لی تھی۔ آپ درخواست دیتے ہیں تو ہم فوراً سماعت کے لیے مقرر کرتے ہیں، مگر تیاری تو کر کے آئیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ بیان حلفی میں دونوں مقدمات کا بتا دیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سچ بولنے کے لیے تیار نہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
بعد ازاں ایڈووکیٹ علی ظفر نے سپریم کورٹ میں کیسز کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اہم فیصلہ کیا ہے۔ بہت سارے پی ٹی آئی امیدواروں کو اشتہاری قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ صرف اشتہاری قرار دینے سے کاغذات نامزدگی مسترد نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بہت سارے کاغذات جو مسترد ہوئے تھے وہ اب بحال ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن میں 3 قسم کے امیدوار ہیں۔ ایک انتخابی نشان والے پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ایک قسم ایسے امیدواروں کی ہے جو بالکل آزاد ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جسے پارٹی نے ٹکٹ دیا۔ پارٹی کے نامزد کرنا امیدوار بے شک انتخابی نشان جو بھی ہو وہ پارٹی کا ہی رکن سمجھا جائے گا۔ عدالت نے فیصلہ نہیں کیا لیکن فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے۔ ہم بہت جلد انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کیخلاف نظرثانی دائر کریں گے۔