یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج ادارے کی ساکھ تباہ کر کے مستعفی ہوجائے،جسٹس مظاہر نقوی کو نوٹس جاری
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی کے حوالے سے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا۔اجلاس کے آغاز پر اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے گزشتہ روز استعفیٰ دینے والے جج مظاہر سید مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ پڑھ کر سنایا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کوئی جج استعفیٰ دے جائے تو کونسل کے رولز کے مطابق اس کے خلاف مزید کارروائی نہیں ہوسکتی۔
کونسل کے رکن جسٹس امیر بھٹی کی جانب سے آرٹیکل 209(3) کی نشاندہی کی گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے مطابق کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کے بعد سینئر ترین جج کونسل کا رکن ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کارروائی میں بیٹھنا نہیں چاہتے، ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا ہم 4 اراکین کارروائی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت ایک ممبر کی عدم موجودگی میں سنئیر ترین دستیاب جج موجود ہوتا ہے، اگر جسٹس منصور علی شاہ دستیاب ہوئے تو کارروائی کو آگے بڑھائیں گے۔
اس کے بعد اجلاس میں مختصر وقفہ کر دیا گیا، وقفے کے بعد کونسل کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ کارروائی میں شریک ہوگئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب معاونت کریں کہ کیا معاملہ ختم ہوگیا؟ یہ استعفیٰ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے آغاز میں نہیں دیا گیا، کونسل کے شوکاز جاری کرنے کے بعد استعفیٰ دیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے درخواستیں غلط ہوں، جج نے دباؤ پر استعفیٰ دیا ہو، جج کے دباؤ میں آکر استعفیٰ دینے سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر جج کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی تو ختم ہو گئی، استعفیٰ دینا کسی جج کا ذاتی فیصلہ ہے، ہمارے سامنے غیر معمولی صورتحال ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں، پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے، کوئی تو فائنڈنگ دینی ہے، شکایات جینوئن تھیں یا نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے، کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کا کارروائی پر اثر کیا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسیجر 2005 میں درج ہے، سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا تھا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئیں، کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی، ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب ہو چکی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، اگر کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخری دن انہیں بتا دیتا ہے کہ آپ کو برطرف کرنے لگے ہیں اور وہ استعفی دے جائے تو کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفی دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ دو رکنی بینچ کا تھا جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔سپریم کورٹ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور خواجہ حارث کو نوٹس جاری سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔اس حوالے سے ہدایت جاری کی گئی کہ جسٹس مظاہر نقوی اور ان کے وکیل کو کونسل کی کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔