چیف جسٹس کا مجھ پر الزامات،انصاف کیلئے کہاں جاؤں؟میر خالد خان لانگو
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)سابق مشیر خزانہ میر خالد خان لانگو نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کا مجھ پر الزامات،انصاف کیلئے کہاں جاؤں؟ بلوچستان ہائی کورٹ میں 426 کی اپیل لگی ہے ہائی کورٹ نے نہیں دی جس پر میں سپریم کورٹ چلا گیا وہاں بھی یہی اپیل کی کہ میری سزا معطل کردے آئین و قانون میں اپیل کو منظور یا مسترد کرنا تھابدقسمتی سے سپریم کورٹ میں میری کردار کشی کی گئی وہ بھی اس رقم پر جو میرے گھر سے برآمد بھی نہیں ہوئے، عام آدمی کوئی بات کرے تو توہین عدالت اگر کوئی جج ہو تو پھر؟ چیف جسٹس کو مجھ سے معافی مانگنی چاہیے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد ڈھائی سال میں میری ایک پیشی نہیں ہوئی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ میر خالد خان لانگو نے کہا کہ گزشتہ روز سے میرا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ یکطرفہ کوریج ہو دنیا میں کہیں ایسا ہوتا تو پھر میرا بھی رائے لینا تھا ایک بندے کے کپڑے اتارے جائیں اور آگے سے دوسرے کا موقف ہی نہ لیا جائے، پورا دن میرا میڈیا ٹرائل ہوتا رہا جو رقم برآمد کی گئی وہ کس کے گھر سے نکلے پیسے برآمدگی کے موقع پر میڈیا کے دوست موجود تھے۔ کیا میڈیا ہاؤسز کی ذمہ داری نہیں کہ وہ دونوں کا موقف لیں جمہوریت میں ایسا تو نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ کل کے فیصلے میں چیف جسٹس نے جو ریمارکس دئیے ہیں اللہ تعالی نے کسی کو چوٹ نہیں دی کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی کرے، پاکستان ایک ملک جس کا ایک آئین ہے یہاں سب کے حقوق برابر ہونا چاہیے، میرا کیس ہائی کورٹ میں چل رہا ہے وہ کس بنیاد پر ریمارکس دے رہے ہیں کہ میرے گھر سے اتنی رقم برآمد ہوئی ہیں کیا چیف جسٹس کو حق ہے کہ وہ میری تذلیل کرے، میں اپنا دکھ درد کس کو سناؤ انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر بھی چوری کا الزام لگا تھا وہ کیس ختم ہو گیا آپ بری الزمہ ہو گئے، سپریم کورٹ کے ججز سے اپیل ہے کہ میں اپنے حق کیلئے کہاں جاؤں؟ مجھے کہاں سے انصاف ملے گا؟ قانون و انصاف ہونا چاہیے بتایا جائے کہ انصاف کے بغیر کسی کوئی معاشرہ چل سکتا ہے، میں نے صرف سزا معطل کرنے کیلئے درخواست دائر کی عمران گچکی اور علی گل کرد کو تو انصاف ملا لیکن مجھے نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں 426 کی اپیل لگی ہے ہائی کورٹ نے نہیں دی جس پر میں سپریم کورٹ چلا گیا وہاں بھی یہی اپیل کی کہ میری سزا معطل کردے آئین و قانون میں اپیل کو منظور یا مسترد کرنا تھا لیکن یہاں باشن شروع کردیا گیا آپ کے ریمارکس کے بعد میرا کیس میں فیصلہ آگیا۔ پاکستان کی عدلیہ 140 میں 129 نمبر پر ہے، بینچ کے باقی ججز پر تشویش ہے کہ انہوں نے کیوں نہیں روکا۔ عام آدمی کوئی بات کرے تو توہین عدالت اگر کوئی جج ہو تو پھر؟ چیف جسٹس کو مجھ سے معافی مانگنی چاہیے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد ڈھائی سال میں میری ایک پیشی نہیں ہوئی، احتساب عدالت میں ہر سماعت پر وہ پیش ہوتے رہے، اس کیس پر ڈھائی سال میں کوئی بحث نہیں ہوئی اب 24 اکتوبر 2024 تک میں یہ کیس نہیں چلاؤں گا۔ میری گزارش ہے کہ ملک میں آئین و قانون کے مطابق کام کیا جائے۔ سب کیلئے یکساں قانون ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی دماغی صحت مند نہیں وکلا سے مشاورت کروں گا جسٹس قاضی فائز عیسی کا دماغی چیک اپ کیا جائے کہ آیا وہ فٹ ہے یا نہیں؟ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے میر خالد لانگو نے کہا کہ ہمارے ملک کا قانون اتنا مضبوط نہیں کہ میڈیا کو پکڑے۔