لاپتا افراد کیس،ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا، چیف جسٹس
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔سپریم کورٹ میں لاپتا افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جس میں شعیب شاہین، آمنہ مسعود جنجوعہ بھی موجود تھیں۔ دوران سماعت اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے لاپتا افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتا افراد کا کیا تعلق ہے؟، جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ لاپتا افراد کا براہ راست ذکر نہیں لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا فیض آباد دھرنا فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے۔ کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔ شعیب شاہین نے بتایا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کا کہا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دوران سماعت مطیع اللہ جان کے اغوا سے متعلق کیس کا حوالہ دیتے ہوئے شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت حکومت اور عدلیہ مداخلت نہ کرتی تو مطیع اللہ جان کو نہ چھوڑا جاتا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلط بیانی نہ کریں۔ واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آگئی تھی۔ یا ڈریں یا پھر حکومت چلا لیں۔ یہ تو وہ کیس تھا جو 2 منٹ میں حل ہو جانا تھا۔ مطیع اللہ جان کو چھڑانے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ تو ساری دنیا نے دیکھ لیا تھا تب چھوڑا گیا۔
آمنہ مسعود جنجوعہ نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ میرے شوہر کو 2005ء میں اٹھا گیا۔ میرے شوہر اپنا کاروبار کرتے تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی وجہ ہے آپ کے ذہن میں کہ کیوں اٹھایا گیا؟، جس پر آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ بعد میں جو لوگ رہا ہو کر آئے انہوں نے بتایا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا اوپر سے حکم آیا تھا کہ اٹھانا ہے، جس پر آمنہ مسعود جنجوعہ نے جواب دیا کہ 2001ء سے وار آن ٹیرر کے نام پر بہت سے لوگ اٹھائے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا۔ ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی اور اس عدالت میں آکر بات کی۔ وکیل شعیب شاہین سے کہا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ پیش ہونے کو تیار ہے، عدالت پروٹیکشن فراہم کرے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم کسی کے لیے کارپٹ بچھائیں گے؟ اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کروائیں۔ ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں گے؟۔ آپ اس کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا؟ دھرنا کیس، الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آ سکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟۔ اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو اپنے لیے بات نہیں کر سکتے تو وہ کسی کے لیے کیا بات کریں گے؟۔آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے شوہر کو لاپتا افراد کمیشن نے 2013ء میں فوت قرار دیدیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ایجنسیز ہیں،اینٹی اسٹیٹ ایلیمنٹ بھی ہوتے ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ عمران منیر جو بعد میں رہا ہوئے، انہوں نے کہا کہ مسعود جنجوعہ آئی ایس آئی کی حراست میں ہیں۔ بتایا گیا وزیرستان میں طالبان نے میرے شوہر کو قتل کر دیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا ہم اس کیس میں کیا کر سکتے ہیں؟۔ ہمیں بتائیں کس طریقے سے آپ کی مدد کر سکتے ہیں؟، جس پر آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ میرے سسر کرنل سے ریٹائرڈ ہوئے۔ میرے سسر اعلیٰ فوجی حکام سے ملے لیکن یہ جواب ملا ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ اٹھائیں۔ کئی برس سے ہم نے ذہنی کرب جھیلا ہے۔ میں تو صرف سچ جاننا چاہتی ہوں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے پوچھیں۔
چیف جسٹس نے کہا جن کا آپ نے نام لیا، اُس وقت تو ہو سکتا ہے وہ میجر کے عہدے پر ہوں۔ کیا ہم حکومت سے پوچھ لیں؟۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ اس معاملے کو دیکھیں۔ اگر کچھ غلط ہوا تو وہ بھی منظر عام پر آنا چاہیے۔ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے بھی پتا کریں۔ مشرف پر بھی الزام لگایا ہے اس لیے وزارت دفاع سے پوچھیں۔ ارجنٹائن میں بھی لوگ اٹھائے گئے۔ حکومت آئی انہوں نے بتایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 18 سال ہو گئے، سچ سامنے آنا چاہیے۔ سب سے زیادہ لوگ لاپتا کب ہوئے؟، جس پر آمنہ م سعود جنجوعہ نے بتایا کہ مشرف دور میں سب سے زیادہ لوگ اٹھائے گئے۔ ہر دور میں لوگوں کو اٹھا کر لاپتا کیا جاتا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں لاپتا افراد کے بارے میں بتائیں۔ لوگ عمومی طور پر باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں نام کے ساتھ بتائیں۔ ہمیں بتائیں پرانے لاپتا افراد اور نئے لاپتا افراد کون کون سے ہیں؟۔ اب روک تو سکتے ہیں کہ کوئی فرد لاپتا نہیں ہوگا۔ کیا آپ یہ بیان دیں گے کہ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر آئندہ کسی کو اٹھایا نہیں جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے۔ بلوچستان میں لاپتا افراد کا معاملہ الگ ہے۔ کے پی کے میں لاپتا افراد کا مسئلہ الگ ہے۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ بنیاد پر بھی قتل ہوتے رہے۔ 6 افراد کو وزیرستان میں مار دیا گیا۔ جو لوگ قتل کرتے ہیں انہیں کسی کا خوف نہیں ہے۔ دنیا میں ہو سکتا ہے وہ لوگ قانون کی گرفت میں نہ آئیں مگر آخرت میں کیا جواب دیں گے؟۔ بلوچستان میں بھی لسانیات کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ اسٹیٹ کو بھی اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ کون ہیں؟، ان کی کتنی عمر ہے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں جن کی عمر 77سال ہے۔ اس موقع پر رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کیا آپ صرف تنخواہ ہی لے رہے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کتنی مرتبہ کمیشن کا اجلاس ہوتا ہے، کتنی ریکوری ہوتی ہے، جس پر رجسٹرار کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 لوگ بازیاب ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے تو صرف یہ لکھا ہے کہ 46 لوگوں کے کیسز نمٹائے گئے، جس پر رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن نے بتایا کہ پہلے جے آئی ٹی بنتی ہے جس میں خفیہ اداروں کے لوگ ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا لاپتا افراد کمیشن کی کارکردگی سے کوئی مطمئن ہے، جس پر وکلا اور لاپتا افراد کے لاحقین نے عدالت میں بیان دیا کہ ہم میں سے کوئی بھی لاپتا افراد کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔
رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ لاپتا افراد کمیشن میں جو سپریم کورٹ کے ججز ہیں یا ہائی کورٹ کے ججز ہیں، انہیں ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز کے مساوی تنخواہ ملتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب انہیں پنشن ملتی ہے تو اتنے پیسے کیوں ملتے ہیں؟، جب حکومت کسی ریٹائرڈ جج سے خدمات لیتی ہے، اسے ادائیگی نہیں کی جاتی۔
لطیف کھوسہ نے عدالت میں بتایا کہ سپریم کورٹ سے بڑی عمارت لاپتا افراد کمیشن والوں کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کے لوگوں کا تقرر کیسے ہوا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کمیشن کے نمائندگان کی میعاد میں توسیع ہوتی رہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کے لیے جاری کردہ ایس آر او میں مراعات کا ذکر کہاں ہے؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 6 ماہ کے لیے کمیشن بنا تھا۔ کمیشن کی میعاد میں توسیع ہوتے ہوتے یہ وقت آگیا۔ فیصل صدیقی نے بتایا کہ کمیشن کے پہلے سربراہ کمال منصور عالم تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ کو علم ہی نہ ہو کہ لاپتا فرد کہاں ہے، پروڈکشن آرڈر کیسے جاری ہو سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کسی کو تو پہلے علم ہونا چاہیے لاپتا فرد کس کی تحویل میں ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان دیا 645 سے زائد افراد کی بازیابی کے آرڈر جاری کیے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کمیشن نے تو پورے 10 ہزار کیسز ہی بند کردیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کو کمیشن کے پروڈکشن آرڈر پر جواب دینا چاہیے۔ کمیشن کی جانب سے جاری کردہ تمام پروڈکشن آرڈر لئ بارے میں تفصیلی رپورٹ دیں۔اعتزاز احسن کے وکیل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ نیا بااختیار کمیشن بنایا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نئے کمیشن کی تشکیل کی بات کررہے ہیں، کمیشن نے کچھ کام تو کیا ہے۔ ہمیں لاپتا افراد کمیشن سے مکمل تفصیلات ناموں اور رہائشی پتے کے ساتھ درکار ہے۔ ہم حکومت کو کہہ سکتے ہیں کہ کمیشن دوبارہ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم حاضر سروس سپریم کورٹ جج کو کمیشن کا سربراہ بنا کر اس کے خلاف کیس کیسے سنیں؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیسز زیر التوا ہیں۔ کتنے ججز کی تعداد ہے، کتنے عدالتی بینچز ہیں، سب کو پتا ہے۔ کمشین فل ٹائم کام ہے پارٹ ٹائم کام نہیں ہے۔ ان شا اللہ چیزوں کو بہتر کریں گے۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جس کمیشن پر آپ نے اعتراض لگایا وہ کمیشن تو آپ ہی کی حکومت نے بنایا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختر مینگل کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا گیا۔ انہوں نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جو عدالتی ریکارڈ پر لاتا ہوں۔ صادق سنجرانی نے کمیشن کی سربراہی سے انکار کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ذاتی مسئلے نہیں سنیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے متعلقہ ایجنسیز سے رپورٹ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میری رائے ہے ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا چاہیے۔ میں حکومت کو نہیں کہہ سکتا کہ فلاں کو کمیشن کا سربراہ بنایا جائے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کیس کا تحریری حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل واپس لینا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل تفصیلی جواب جمع کرائیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر 2005 میں لاپتا ہوئے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے لاپتا افراد کمیشن سے رجوع کیا۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا میں لاپتا افراد کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن کے دیگر ممبران میں ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ ججز بھی ہیں۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں لکھوایا کہ رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن خالد نسیم نے کہا کمیشن نے لوگ بازیاب کرائے۔ اعتزاز احسن کی درخواست پر رجسٹرار سپریم کورٹ کے اعتراضات ختم کیے جاتے ہیں۔ خوشدل خان کی درخواست پر بھی سماعت ہوئی۔ خوشدل خان کی درخواست پر ذاتی نوعیت کا معاملہ اٹھایا گیا۔ سپریم کورٹ نے شیخ رشید، صداقت عباسی، عثمان ڈار،فرخ حبیب، اعظم خان بارے کیسز سننے سے انکار کردیا۔ ہم اس کیس میں صرف لاپتا افراد کو فوکس کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو کوئی عذر ہے تو وہ خود سامنے آئے یا وہ متعلقہ عدالتوں سے رجوع کر سکتا ہے۔ عدالت نے لاپتا افراد کمیشن سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ تمام لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق جاری کردہ پراڈکشن آرڈرز اور عدم عمل درآمد کے بارے میں تفصیلی جواب دیں۔
عدالت نے حکم نامے میں مزید کہا کہ اگر کوئی پر امن احتجاج کر رہا ہے تو یہ ان کا حق ہے۔ پر امن احتجاج پر طاقت نہ استعمال نہ کی جائے۔ پر امن احتجاج کرنے والے سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچا رہے۔ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہیں۔ کمیشن 10 روز میں تفصیلی جواب دے۔عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت دو ہفتوں تک کے لیے ملتوی کردی۔