10 ملین رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندگان میں سے صرف 3.6 ملین نے اپنے گوشوارے جمع کرائے ہیں، سینیٹر عبدالقادر
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پیٹرولیم و رسورسز اور سیاسی و اقتصادی امور کے ماہر سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا ہے کہ 10 ملین رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندگان میں سے صرف 3.6 ملین نے اپنے گوشوارے جمع کرائے ہیں اہداف کے مطابق محصولات کی وصولی کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو سخت محنت کرنا ہوگی پاکستان اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے ہر پاکستانی اور ہر ادارے کو انتھک جدوجہد کرنا ہوگی بدقسمتی سے ٹیکس ادا کرنے کی استعداد رکھنے والے افراد اور ادارے ٹیکس کی ادائیگی کے حوالے سے اپنی قومی ذمہ داری نہیں نبھاتے۔یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں سینیٹر محمدعبدالقادر نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس چوری کا عمومی مزاج اور ماحول پایا جاتا ہے صرف ٹیکس دہندگان ہی نہیں ٹیکس وصولی کرنے والا ادارہ بھی ٹیکس چوری کے گھناؤنے جرم میں ملوث پایا گیا ہے بجائے اسکے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس چوروں کو پکڑنے میں اپنی مستعدی کا مظاہرہ کرے اس ادارے سے منسلک افسران اور اہلکار ٹیکس چوری کے جرم میں برابر کے شریک پائے گئے ہیں قیام پاکستان سے لیکر اب تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہو۔انہوں نے کہا کہ 2023 میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک کے اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لئے اشیاء ضروریہ کی اسمگلنگ کی روک تھام، ڈالر کی اسمگلنگ اور ٹیکسوں کی وصولی کو یقینی بنانے کے لئے نہایت ٹھوس اقدامات اٹھائے جن کے ثمرات فوری طور پر دیکھنے کو ملے روپے کی قدر میں مسلسل بہتری آئی، ڈالر اور اشیاء خورد و نوش کی اسمگلنگ فوری طور پر روکنے سے ملک بھر میں اجناس کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی اور ایف بی آر کا محکمہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار متعین کردہ اہداف کے مطابق ٹیکس وصولی کرنے میں کامیاب ہوا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ایف بی آر نے ایک ماہ میں ایک کھرب اکیس ارب روپے سے زائد ٹیکس وصولی کرتے ہوئے اپنی شاندار کا مظاہرہ کیا ہے اسکے علاوہ 38 ارب روپے کے ریفنڈ کی ادائیگی بھی ممکن ہو سکی مجموعی طور پر ادارے کی کارکردگی بہتر رہی اگر ایف بی آر کی ٹیکس وصولی کی کارکردگی اسی تناسب سے بہتری کی جانب گامزن رہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ آمدہ سالوں کے دوران ٹیکس وصولی سے قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور یوں ملک عمومی طور پر معاشی ایمرجنسی کی سے کیفیت سے باہر آنے لگے گا