کوئٹہ میں جہاں کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں وہاں اب جوتوں کی دکانیں ہیں، نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ لوگوں کو کتاب کی طرف راغب اور معاشرے کو علم دوست بناکر ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہوگا، جو لوگ ذاتی حیثیت سے صوبے میں علم و ادب کی ترقی و ترویج میں کردار ادا کررہے ہیں وہ لاحق تحسین ہیں، ہمیں اپنے اندر ایک دوسری کی تنقید برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا تاہم تنقید میں بھی ادب کو محلوظ خاطر رکھا جائے،یہ بات انہوں نے بلوچستان پیس فورم کے زیراہتمام اتوار کو کوئٹہ پریس کلب میں ڈاکٹر تاج رئیسانی کی کتاب کے حوالے سے مکالماتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہی،تقریب میں ڈائریکٹر خانہ فرینگ ایران ابو الحسن امری افضل مراد، نور خان محمد حسنی، پروفیسر ڈاکٹر سوسن براہوئی، قیوم بیدار، پروفیسر محمد یوسف، شاہین بارانزئی، ڈاکٹر سلیم کرد، برمش خان سمیت دیگر نے بھی اظہار خیال کیا، اس موقع پر بلوچستان پیس فورم کے وائس چیئرمین ظفر صدیق، طارق رئیسانی و بلوچستان پیس فورم کے بڑی تعداد میں رضاکار موجود تھے۔ بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان پیس فورم نے بلوچستان میں ایک نئی روایت قائم کی ہے جس کے تحت ہم یہاں ڈاکٹر تاج رئیسانی کی کتاب کا تنقیدی جائزہ لینے کیلئے جمع ہوئے ہیں، آج کی تقریب میں شرکاء نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کتاب پر اظہار خیال کیا امید ہے آئندہ دنوں میں کتابون کے حوالے سے مزید بہتری آئے گی، مکالماتی نشست کی روایت کو برقرار رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کلچر قومی اثاثہ ہے اور ہم نے اپنے کلچر کو کا تحفظ کرنا ہے، اہل قلم و دانشور سماج میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے اپنے قلم کو استعمال کریں اور ہزاروں سالوں پر محیط ہمارے کلچر جس میں بردباری، لحاظ، خاطر، احترام، حوصلہ شامل ہے کو آگئے بڑھانے میں اپنا کرادر ادا کریں۔ انہوں نے بلوچی، پشتو، براہوئی، ہزارگی اکیڈمیوں اور اہل قلم کو دعوت دی کہ اگر وہ کتابوں کے حوالے سے مکالماتی نشست منعقد کرانا چاہتے ہیں تو بلوچستان پیس فورم ان کی میزبانی کرئے گی اور مہینے میں ایک دو نشست منعقد کرکے کتابوں پر بحث اور ان کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے تجویز دی کہ کتابوں کے مصنفین سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کتاب پر اپنا نقطہ نظر بیان کریں تاکہ جب ان کی کتاب عام شہری تک پہنچے تو وہ کتاب کو آسانی سے سمجھ سکیں انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اندر ایک دوسری کی تنقید برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگاتاہم تنقید میں بھی ادب کو محلوظ خاطر رکھا جائے اور اصولوں کا تعین کیا جائے تاکہ آئندہ نسلوں کو حوصلہ اور برداشت کی تربیت دئے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو تعلیم اور علم کی طرف راغب کرنے کیلئے کتاب دوستی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس دور میں واپس لوٹ جائیں جس دور میں صوبے نے بڑی بڑی سیاسی، ادبی شخصیات کو پیدا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کئی مرتبہ پیمرا سے درخواست کی ہے کہ تمام ٹی وی چینلز کو پابند کیا جائے کہ دن میں دو تین کتابوں کا تعارف پیش کریں تاکہ لوگ کتاب دوستی کی طرف راغب ہوں تاہم ریاست اور سماج کی عدم سنجیدگی کے باعث رات کو ٹاک شو کے نام پر جس کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ایسے پروگراموں میں لوگ بیٹھ کر ایک دوسری کی تذلیل کررہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کوئٹہ میں جہاں کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں وہاں اب جوتوں کی دکانیں ہیں جو ہمارے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور ہمیں اس چیلنج کو قبول کرکے لوگوں کو کتاب کی طرف راغب اور معاشرے کو علم دوست بناکر ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔