بلوچستان میں جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ کیوں نہیں دیے جاتے؟
تحریر: غالب نہاد
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ملک بھر کی نظریاتی، مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دینے سے متعلق مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے عموما ملک بھر میں عام انتخابات کے دوران مرد امیدواروں کو زیادہ تر پارٹی ٹکٹ دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتیں پارٹی ٹکٹس خواتین کو نہ ملنے کی وجہ سے ایوان بالا اور دیگر اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے
جس کی وجہ سے خواتین کے مسائل نہ تو بہتر انداز میں اجاگر ہوتے ہیں نہ ہی حل ہو پاتے ہیں اس صورت سے نمٹنے کے لیے گزشتہ عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ ہر سیاسی جماعت اپنی جنرل نشستوں کے پارٹی ٹکٹس کا پانچ فیصد خواتین سیاسی رہنماں کو دے گی تاہم بلوچستان میں چند سیاسی جماعتوں کے علاوہ زیادہ تر نے الیکشن کمیشن کے احکامات کو نظر انداز کر دیااسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی سمیت ووٹ کے معاملات پر گزشتہ برس قومی کمیشن برائے حیثیت خواتین کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ترجمان الیکشن کمیشن، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین اور نادرا کے نمائندگان شریک ہوئے اجلاس میں سفارشات پیش کی گئیں جن کے مطابق سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے والی خواتین امیدواروں کی انتخابی مہم چلائیں گی، سیاسی جماعتوں میں کوٹہ پر آنے والی خواتین امیدواروں کی فہرست الیکشن سے پہلے منظر عام پر لائی جائے گی خواتین کی نشستوں پر خواتین کی نمائندگی کسی ایک حلقے یا ضلع تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے تمام اضلاع میں تقسیم کیا جانا چاہیے ملک کے ترقی یافتہ صوبوں میں جہاں خواتین کو جنرل نشستوں پر اہمیت نہیں دی جاتی اسی طرح بلوچستان میں صورت حال اس سے بھی بدتر ہے
سینیئر خاتون صحافی سعدیہ جہانگیر نے بتایا کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں میں خواتین رہنماوں کی تعداد جماعتوں میں نہ ہونے کے برابر ہے دوسری جانب پر سیاسی جماعتوں کو خواتین امیدواروں سے اس بات کی بھی امید نہیں ہوتی کہ ان کی منتخب کردہ خاتون رہنما متعلقہ حلقے سے کامیاب ہو پائیں گی یا نہیں؟سعدیہ جہانگیر نے کہا کہ نظریاتی ہوں، مذہبی ہوں یا قوم پرست سیاسی جماعتیں سب میں خواتین ونگز موجود ہوتے ہیں جو نہ صرف جلسے، جلوسوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں بلکہ پارٹی تنظیم سازی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں لیکن جب بات آتی ہے انتخابات کی تب سیاسی جماعتوں کا یہ مقف ہوتا ہے کہ اگر جنرل نشست پر خاتون امیدوار کو کھڑا کردیا تو پھر پارٹی ٹکٹ ضائع ہو جائے گی دور جدید میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر کام کر رہی ہیں لیکن آج بھی صوبے کی بڑی سیاسی جماعتوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ مرد کارکن کا عوامی حلقوں میں زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا جبکہ قبائلی معاشرے ہونے کی وجہ سے خواتین کارکن اس طرح کے عوامی حلقوں میں فعال کردار ادا نہیں کر سکتیں جس کے باعث مردوں کو جنرل نشستوں کا بہتر امیدوار سمجھا جاتا ہے سعدیہ جہانگیر کے مطابق اپنے صحافتی ادوار میں ہم نے بھی یہی دیکھا ہے کہ ماسوائے 2 سے 3 خواتین کے اب تک صوبے میں کوئی بھی خاتوں جنرل نشست سے کامیاب ہو کر ایوان میں نہیں آ سکی جس کی وجہ سے پارٹیز خواتین امیدواروں کو جنرل ٹکٹ دینے سے کتراتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ بھی موجود ہے کہ صوبے میں خواتین کا ووٹ آج بھی اپنا نہیں صوبے میں قبائلی نظام رائج ہونے کی وجہ سے خواتین ووٹرز کو گھروں سے اس بات پر پابند کیا جاتا ہے کہ وہ خاندان کے مرد کی بات مانتے ہوئے امیدوار کو ووٹ دے صوبے میں خواتین کے حقوق سے متعلق آواز اٹھانے میں سماجی رہنما اللہ الدین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت سے متعلق حکام بالا کو ایک چارٹر آف ڈیمانڈ دیا ہے جس میں عام انتخابات کو جلد از جلد کروانے پر زور دیا گیا ہے ان کا مطالبہ تھا کہ خواتین کو اسمبلیوں میں 33 فیصد کی نمائندگی دی جانی چاہیے۔ اب تک صوبائی اور قومی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی 17 فیصد ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے
انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے بھی التجا کی ہے کہ ان حلقوں میں انتخابات کو معطل قرار دیا جائے جہاں خواتین کا ووٹر ٹرن آوٹ 30 فیصد سے کم ہو کیونکہ قانون کیمطابق 10 فیصد سے کم ٹرن آوٹ پر الیکشن کالعدم ہو جاتے ہیں لیکن ہم نے 30 فیصد کی ڈیمانڈ دے رکھی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ہم نے الیکشن کمیشن سے یہ بھی درخواست کر رکھی ہے کہ پارٹی میں خواتین کا جنرل نشستوں پر کوٹہ 5 سے بڑھا کر 15 فیصد کر دیا جائے اللہ الدین نے بتایا کہ اس معاملہ پر ہم نے سیاسی جماعتوں سے بھی کہا ہے کہ خواتین کو ان حلقوں سے ٹکٹ دیا کریں جہاں سے ان کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں لیکن بد قسمتی سے سیاسی جماعتیں خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ تو دے رہی ہیں لیکن ان حلقوں سے ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں جہاں خواتین امیدواروں کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایسے میں یہاں مسئلہ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کئی بار خاتون امیدواروں کی ضمانت تک ضبط ہو جاتی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن اسمبلی شکیلہ نوید نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بی این پی مینگل کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ سے خواتین رہنماوں کو جنرل نشستوں پر موقع فراہم کرتی ہے تاہم صوبے میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں آج بھی خواتین کو نمائندگی فراہم نہیں کرتیں جس کی وجہ سے خواتین ایوان میں صرف مخصوص نشستوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایسے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتیں بلوچستان میں آج بھی غیرت کے نام پر قتل، خواتین کا جنسی استحصال، کم عمری میں شادی سمیت کئی سماجی ناسور معاشرے کا منہ چڑاتے رہے ہیں ایسے میں اگر ایوانوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہو تو یہ مسائل بھی ایوانوں کا دریچہ پار کر لیں گے۔