پولیٹکل اکانومی کے تناظر تجارت میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ

چمن(ڈیلی گرین گوادر) گورنر بلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑ نے کہا کہ سرحدی تجارت سے آگر مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے تاجروں کو روزی روٹی ملتی ہے لیکن ملکی سطح پر معیشت کا پہیہ بھی گھومتا ہے. پولیٹکل اکانومی کے تناظر تجارت میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا. بڑے تاجروں کے کاروبار دراصل چھوٹے تاجروں اور ہنرمندوں سے ہی رواں دواں رہتا ہے. انہوں نے پرلت کمیٹی کو یقین دلایا کہ سرحد کے قریب علاقوں میں آباد لوگوں اور خاص طور پر تاجروں کو درپیش مسائل، مشکلات اور مطالبات سے متعلقہ حکام کو آگاہ کریں گے اور انشااللہ جلد ہی باہمی افہام و تفہیم سے ایک پائیدار حل نکل جائیگا. ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو چمن شہر کا ایک روزہ دورے پر پرلت کمیٹی کے رہنماوں اور چھوٹے تاجروں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا. اس موقع پر گورنر بلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑ نے کہا کہ ہمارے دو برادر ہمسایہ ممالک کے ساتھ طویل سرحدیں ہیں. ایران کے ساتھ نو سو کلومیٹر جبکہ افغانستان کے ساتھ چھبیس سو ستر کلومیٹر طویل سرحد موجود ہیں. دونوں جانب بسنے والے لوگوں کے سماجی و معاشی حالات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں. یہ حقیقت ہے کچھ عرصہ قبل عالمی وبا کوویڈ نائنٹین اور کاروباری مراکز کی بندش کے دوران بھی یہاں کی تاجر برادری بہت متاثر ہوئی. گورنر بلوچستان نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ چمن میں بڑے تاجروں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں چھوٹے تاجر بھی موجود ہیں جنکی گزر اوقات کا واحد ذریعہ اس سرحدی تجارت پر منحصر ہے. جب ان چھوٹے چھوٹے تاجروں کی آمدن صرف ایک دن بھی متاثر ہو جائے تو ان کا پورا خاندان اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے لہذا فوری طور پر مقامی آبادی کے مسئلہ کے حل کیلئے تجارتی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ضروری ہے تاہم مسئلہ کے دیرپا حل کیلئے لوگوں کی پائیدار ترقی و خوشحالی کیلئے یہاں بڑے پیمانے پر صنعتی اور تجارتی سرمایہ کاری کی جانی چاہیے. انہوں نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ چمن میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اچھی شہرت کے حامل کاروباری شخصیات بھی موجود ہیں. یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ چمن کے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو دیگر ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک کی تجارتی منڈیوں تک رسائی دیں اور مقامی سطح پر ضروری سہولیات، مواقع اور تحفظ فراہم کریں تاکہ ملک و صوبے میں معاشی استحکام کیلئے راہ ہموار ہو سکیں اور اسی میں سب کا فائدہ ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے