عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ ہے کہ اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کریں،سینیٹر محمد عبدالقادر
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پیٹرولیم و رسورسز اور سیاسی و اقتصادی امور کے ماہر سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا ہے کہ او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کو ہتھیاروں کی فروخت روکی جائے اسرائیل کا حق دفاع کا دعویٰ اور غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا کوئی بھی سیاسی حل مسترد کر دیا گیا تاہم اسرائیل کے خلاف مشترکہ اقدامات پر اتفاق نہ ہو سکا۔یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہاکہ تیل اور تجارت مسلمان ملکوں کی اہم طاقت ہیں عرب ممالک نے او آئی سی اور عرب لیگ میٹنگز کے موقع پر اسرائیل کے لئے تیل کی ترسیل کے خلا ف بھی کوئی حتمی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا الجزائر اور لبنان سمیت چند ممالک نے مجوزہ قراردادوں میں اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی روکنے انکے ساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات توڑنے اور امریکہ پر خطے کے دیگر ممالک کو ہتھیار اور بموں کی فراہمی کے لئے عرب ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے کی پابندی کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے یہ تجویز مسترد کر دی اور گیارہ ممالک نے اس کی حمایت کی عرب ممالک کے اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق رائے نہ ہو سکا جس کے بعد عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا حماس نے غزہ سے جاری اعلامیہ میں عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کریں جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلیوں کے خلاف قانونی کمیشن تشکیل دینے اور غزہ کی ازسرنو بحالی کیلئے فنڈ کے قیام کا مطالبہ کیا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ اسرائیل کے پاس جنگ کا کوئی جواز نہیں فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت رکوانے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے اور فیصلہ کن مشترکہ قرارداد منظور کرنے کی ضرورت تھی فیصلہ کن قرار داد منظور نہ ہونے سے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے، معصوم شہریوں کو قتل کرنے اور غزہ کو نیست و نابود کرنے کا نیا حوصلہ ملا ہے، حالیہ اسرائیلی حملوں نے 12 ہزار سے زائد معصوم فلسطینی عوام کی جانیں لے لی ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 35 ہزار سے زائد ہے جب تک مسلم خصوصاً عرب ممالک تیل و تجارت کے مظبوط ہتھیار کو اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں کریں گے اسرائیل پر دباؤ نہیں بڑھے گا۔