بلوچ اپنے ساحل وسائل، اپنے حقوق تنہا حاصل نہیں کرسکتے، ہمیں ایک دوسرے کی برابری، سیالی کو تسلیم کرنا ہوگا، محمود خان اچکزئی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہاہے کہ ناانصافیاں نفرتوں کو جنم دیتی ہے اور دوریاں پیدا کرتی ہے،بھوک وافلاس اور دنیا جہاں کی مسافرانہ اذیت ناک زندگی اور قومی محکومی ومحرومی یہ ہماری قسمت نہیں بلکہ انسانوں کی غلط اقدامات کانتیجہ ہے، ہمیں اپنے حق کا مقدمہ ایسے رکھنا ہوگا جیسے ہمارے اکابرین نے ہمیں سکھایا ہے، ہم کسی سے رنگ، نسل،زبان، مذہب، فرقہ کی بنیاد پر نفرت نہیں کرتے،ہم کسی سے خیرات نہیں لینا چاہتے ہیں ہماری سرزمین پر جو کچھ پرودگار نے ہمیں دیا اس پر انسانیت عالم،اسلامی اور تمام قوانین کے مطابق پہلا حق ہمارے بچوں کاہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان انٹرنیشنل تھنک ٹینک،انٹرنیشنل سوسائٹی آف ارتھ فرینڈز پاکستان اور فرینڈز آف یونیورس سوسائٹی پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار(بلوچستان کے ساحل، اسکے بیش بہا قیمتی وسائل اور معاشی مسائل کا حل آپکی نظر میں) کے عنوان سے متعلق بحیثیت مہمان خصوصی اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ قوم وزبان کی اہمیت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ چار مختلف زبانوں میں کتابیں نہ بھیجتا، قوم پرور سیاسی جمہوری جماعتیں محکوم اقوم اور مظلوم عوام کیلئے یکجاء ہوں تنہا بلوچ بھائی اپنے حقوق کی جنگ نہیں لڑسکتے، ہم ملک نہیں توڑنا چاہتے لیکن غلام کی حیثیت سے بھی نہیں رہنا چاہتے بیشک کسی کو اچھا لگے یا بُرا، ملک میں ایک جمہوری وفاقی متفقہ آئین کی تشکیل نہ ہونے دی گئی،نتیجتاً پنجاب اور بنگال کی کشمکش میں ہمارا ملک اپنی تشکیل کے انتہائی قلیل مدت کے صرف 24سال بعد دولخت ہوا۔ آئین بالادست ہونا چاہیے اور آئین میں دیئے گئے ہر ادارے کے اپنے دائرہ کار ودائر اختیار کا تعین کیا گیا ہے جس کی پابندی ان پر لازم ہے، ہر ادارے کے فردکو اپنے آئینی حلف کا پاس رکھنا ہوگا اگر کوئی سیاست کرنا چاہتا ہے تو مستعفی ہوکر باقاعدہ سیاست کا آغاز کرے۔1945میں لیگ آف نیشن بنایا گیا اور اسے 78سال ہوئے جس میں 60ملک ٹوٹ چکے جس کی تعداد اب 192ہوچکی ہے اور یہ ناانصافیوں کے نتیجے میں بنے ہیں۔60کی دہائی سے اس صوبے کے علاقہ سوئی سے گیس برآمد ہوئی اور پورے ملک تک پہنچ چکی لیکن ڈیرہ بگٹی میں آج بھی بلوچ ماں، بہن، بیٹی گیس کی سہولت سے محروم ہوکر خشک لکڑیوں کے ذریعے روٹیاں پکاتی ہیں،گزشہ وقت میں سیاسی پارٹیاں امتحان میں ناکام رہی، لندن میں آل پارٹیز کے اعلامیہ کے تحت کوئی ایک جرنیل کے ماتحت ملکی انتخابات میں کوئی حصہ نہیں لیگا لیکن پھر ملک میں آکر اس اعلامیہ سے انحراف کیا گیا، سعودی عرب اور ایران کے معاہدے کے نتیجے میں قتل وقتال کم ہوجائیگا۔لاکھوں نوجوانوں کا روزگار افغانستان اور ایران سے وابستہ ہے خود ساختہ قدغنیں ہمارے عوام کو قابل قبول نہیں، ہم اپنے سائل وسائل پر اپنا واک واختیار چاہتے ہیں غلامی نہیں،پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز کو جمہوریت کے ہیروز قرار دیئے جائے اور انہیں وہ تمام مراعات، تنخواہیں دی جائیں جو صرف جمہوریت، آئین کیلئے انہوں نے چھوڑ دی تھیں اور جن ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھائے انہیں آج ہی نوکریوں سے نکال کر تمام مراعات واپس لئے جائیں، ملکی خفیہ ادارے تمام ایجنسیاں اپنے شعبے میں ماہر ہیں وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ کون لوگ سمگلنگ میں ملوث رہے ہیں انہیں بے نقاب کر کے تمام دولت ملکی خزانے میں جمع کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی بیان دیا کہ ریاست ڈوبنے جارہی ہے یقینا ملکی حالات درست نہیں ہوش کے ناخن لینے ہونگے ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔ عوام کے ووٹ پر اعتماد کرتے ہوئے شفاف غیرجانبدارانہ انتخابات کا انعقاد کرنا ہوگا سیاست میں مداخلت اور مرضی کے لوگوں کا انتخاب کرنا، پھر انہیں بلیک میل کرنا، فائلیں بنانا بعد میں وزیر اوروزیر اعلیٰ بنانے جیسے اقدامات کو ترک کرنا ہوگا۔ ہمارے اکابرین کی سیاسی جمہوری جدوجہد وقربانیاں پشتونخوامیپ سمیت تمام سیاسی جمہوری کارکنوں کیلئے مشعل راہ ہیں، ہمارے اکابرین کی سیاسی جمہوری جدوجہد انگریزوں کے خلاف رہی اور ملک کے قیام کے بعد بھی ہم اکھٹے جدوجہد کرتے رہے ہیں، ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اپنی مٹی کی حفاظت، قومی محکومی سے نجات، قوم کو حقو ق دلانے کیلئے انگریز کی غلامی تسلیم نہیں کی اور نہ ہی اب کسی کی غلامی تسلیم کرینگے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغان کڈوال کیخلاف جو کریک ڈاؤن جاری ہے یہ غیر انسانی، غیر اسلامی اور انسانی روایات کے برخلاف رد عمل ہے۔ افغانستان اور پاکستان دونوں کو ملکر بیٹھنا ہوگا اور یہ طے کرنا ہوگا کہ ایک منصوبے کے تحت مرحلہ وار لوگوں کو باعزت طریقے سے افغانستان کیلئے بھیجا جاسکتا ہے اور اقوام متحدہ دنیا کے مروجہ قوانین کے تحت جو بچہ جس ملک میں پیدا ہوتا ہے اُسے وہاں کی نیشنلٹی دی جاتی ہے یہ طویل بات ہے میں صرف یہ کہتا ہوں کہ 1969کے اقوام متحدہ اور دنیا کے دیگر ممالک جوکہ کسی طرح افغانستان کی بربادی میں حصہ دار رہے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ملکوں کو دوبارہ تعمیر ومرمت کیلئے جو منصوبہ اقوام متحدہ کی طرف سے دیا گیا تھا اس طرح کے منصوبے کے تحت افغانستان کی تعمیر نو ہوں۔ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکابرین اپنے سیاسی جمہوری جدوجہد کے دروان پہلے انگریزوں اور پھر ملک کے قیام کے بعد آمر حکمرانوں کے خلاف ہر جمہوری جدوجہد وتحریک میں صف اول میں کھڑے رہے جب یہ ملک بنا تب بھی ہم اکھٹے تھے اور آج بھی ہمیں اکھٹے ہوکر ہی اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے پورے صوبے کی آبادی صوبہ پنجاب کے ایک بڑے ضلع کی آبادی سے زیادہ نہیں، لیکن ہمارے وسائل یورپ کے بہت سارے ملکوں سے زیادہ ہے پھر بھی ہمارے نوجوان روزگار کی تلاش میں مسافرانہ اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ بھوک وافلاس ہماری مجبوریاں اور ہماری قسمت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرتی نعمتوں سے مالا مال وطن کا مالک بنایا لیکن انسانوں نے ناانصافی اور قبضہ کو دوام دیتے ہوئے ہمیں اپنے ہی وسائل سے محروم رکھا ہے۔ آج بھی اس صوبے کا غریب شخص تین جوڑے کپڑے خریدنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آج کے سیمینار کے میزبان ایس جدون صاحب کی دعوت پر ہم یہاں موجود ہیں انہوں نے ہمت کی کہ ہمارے اکابرین کے ناموں سے ایوارڈ کی تقریب منعقد کرکے مختلف سیاسی جمہوری جماعتوں کے رہنماؤں کو آج یکجا ء کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑے بڑے لوگوں سے سیکھا ہے کہ دنیا میں پہلی اینٹ انصاف کی ہے انصاف گھر، بھائیوں، میاں بیوی میں نہ ہوں یہ گھرنہیں چل سکتے اسی طرح یہ ملک بھی نا انصافیوں سے نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 36کے قریب سیاسی جماعتیں لندن میں بیٹھے جہاں جرنیل گھبرایا، لیکن ایک پارٹی یہاں ساز باز کرکے الیکشن کی طرف چلی گئی اور اس طرح جمہور وجمہوریت کا سیاسی اتحاد کا پلان متاثر ہوا اور آج ملک کو جس صورتحال کا سامنا ہے یہ اُس کا قدرتی نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970ء کے انتخابات میں بنگال،پشتون، بلوچ نے قومی سوال کو ووٹ دیا، پنجاب اور سندھ نے روٹی، کپڑا، مکان کو ووٹ دیا، اگر اُس وقت عوام کو ان دو نقطوں پر توجہ دی جاتی ہے تو آج حالات کچھ اورہوتے لیکن پاکستان میں عوام کے ان دونوں سوالوں کو نظر انداز کیا گیا جس کا نتیجہ بنگال کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 800میل ساحل، سونا، معدنیات کے مالک ہونے کے باوجود بلوچ اپنے وسائل سے محروم ہیں بلوچ اپنے ساحل وسائل، اپنے حقوق تنہا حاصل نہیں کرسکتے، ہمیں ایک دوسرے کی برابری، سیالی کو تسلیم کرنا ہوگا اور ہم ملکر ہی اپنے حقوق کیلئے مشترکہ طور پر جدوجہد کرسکتے ہیں۔ کیونکہ پشتون بلوچ دو برابرسیال قومیں ہیں برابری کی بنیاد پر ہی ہم یہاں رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لاکھوں لوگ افغانستان، ایران کے ساتھ روزگار، تجارت کررہے ہیں اگر خدانخواستہ بلوچ پشتون کسی خطرناک عمل میں شریک ہیں تو ٹھیک لیکن یہ سب ہمارے لیئے قابل قبول نہیں کہ آپ ان سے تجارت، روزگار چھین کر انہیں بھوک وافلاس اور درپدری سے دوچار کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وسائل پر قبضے کیئے جارہے ہیں ہمارے معدنیات پر ہماری منشاء کے بغیر منصوبے بنائے جارہے، انگریز نے ہمیں ٹرین، سڑک، سکول، ہسپتال کے نظام دیئے لیکن ہمیں غلام رکھ کر ہم پر حکمرانی کرنا چاہتے تھے اور ہم ان کے خلاف کھڑے ہوئے۔ یہ وطن ہمارا ہے ہم خود اس کے حکمران بننا چاہتے ہیں ہمیں اپنے وطن پر حق حکمرانی چاہیے جو ہمارا حق ہے اور ہم کسی کی زور زبرستی کو برداشت نہیں کرینگے۔ تقریب کے آخر میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے بلوچستان انٹرنیشنل تھنک ٹینک،انٹرنیشنل سوسائٹی آف ارتھ فرینڈز پاکستان اور فرینڈز آف یونیورس سوسائٹی پاکستان کی جانب سے مختلف سیاسی، سماجی رہنماؤں، کارکنوں، صحافیوں، ادیبوں،مصنفین، کالم نگاروں کو سرٹیفکیٹ، گولڈ مڈل اور ایوارڈ سے نوازا۔