بلوچستان کی دو دہائیوں کی بدترین صورت حال حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کی دو دہائیوں کی بدترین صورت حال حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے عوامی نمائندے حقیقی نہیں، پارلیمنٹ کی بالادستی اور ووٹ کے حق کو تسلیم کیا جائے سینسرشپ ختم، طلبہ کو روزگار اور اسکالرشپ دی جائیں، بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں ملیٹنسی کا حل نہیں، نوجوان جمہوریت اور ٹیکنیکل تعلیم کی طرف آئیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے: نجی ٹی وی:سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال گزشتہ دو دہائیوں میں کبھی اتنی خراب نہیں رہی جتنی اب ہے، جس کی بنیادی وجہ حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں شام پانچ بجے کے بعد سفر کرنا ممکن نہیں، انٹرنیٹ سروس بند ہے اور روزانہ کہیں نہ کہیں ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت، پارلیمنٹ اور سیکورٹی اداروں کو بلوچستان کے لیے کثیر جہتی حکمت عملی اپنانا ہوگی، عوام کے ووٹ کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ 2024 میں عوام کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا اور اکثریت عوامی نمائندے حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ بلوچستان میں کرپشن عروج پر ہے اور ترقیاتی منصوبے برائے نام ہیں۔ڈاکٹر مالک بلوچ نے زور دیا کہ صوبے میں سینسرشپ ختم کی جائے، طلبہ کو اسکالرشپ اور روزگار فراہم کیا جائے، بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں اور عوام کی رائے کا احترام کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں بلوچستان کے نوجوانوں کو جمہوریت، عدم تشدد، معیاری اور ٹیکنیکل تعلیم کی طرف آنا چاہیے تاکہ بہتر مستقبل کی ضمانت حاصل ہو۔انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں وہ اور ان کے ساتھی الیکشن کے خلاف تھے لیکن وقت کے ساتھ جمہوری عمل کا حصہ بنے، 1988 میں پہلا الیکشن جیتا اور وزارت اعلی تک پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملیٹنسی مسئلے کا حل نہیں، جمہوری جدوجہد ہی پائیدار حل ہے۔
