کوئٹہ کی صفائی:دعووں، تجربوں اور حقیقتوں کا سنگم

تحریر: فرید بگٹی
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے گھر کے آنگن کی صفائی تو روز کرتے ہیں، لیکن جس شہر کی گلیوں میں ہمارا بچپن گزرا، جس کی ہوا میں ہماری سانسیں مہکتی ہیں، جس کی سڑکوں پر ہم روزانہ سفر کرتے ہیں، اس کی صفائی ہمارے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ کیوں نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہم نت نئے تجربوں سے گزرنے کے باوجود صفائی کے معاملے میں آج بھی سوالات کی دلدل میں پھنسے ہیں؟ آئیں! آج اس تحریر میں نہ صرف سوالات اٹھاتے ہیں بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ زمینی حقائق کو سمجھیں، اعتراف کریں اور ایک اجتماعی سوچ کی بنیاد رکھیں۔

کوئٹہ، جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، آج کچرے، بدبو اور بے حسی کی لپیٹ میں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم لوکل گورنمنٹ کو ذمہ دار ٹھہرا کر پرائیویٹائزیشن کے خواب دیکھ رہے تھے۔ پھر خواب حقیقت میں بدلے، صفائی کا شعبہ ایک نجی کمپنی کے حوالے کیا گیا، منصوبے کو خوبصورت نام "صفاء کوئٹہ” دیا گیا، امیدیں بندھی، دعوے کیے گئے کہ اب تبدیلی آئے گی، لیکن تبدیلی کب یکدم آتی ہے؟ ہم نے تو جیسے ایک ہی دن میں "لٹل پیرس” بننے کی توقع باندھ لی۔

یہ توقعات اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس شہر کو اپنی ذمہ داری سمجھا؟ کیا ہم نے کبھی دل سے کہا کہ "یہ شہر ہمارا ہے”؟ اسمبلی کے اراکین ہوں یا عام شہری، سبھی کوئٹہ کی زمین اور وسائل سے مستفید ہوتے ہیں۔ ہسپتال، سکول، سڑکیں، بازار — سب استعمال ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ "ہم تو کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، صفائی ہماری ذمہ داری نہیں”۔ جیسے گاؤں کی دیہاتی عورتیں کہتی ہیں: "گھر ہمارا تھوڑی ہے!” کیا شہر کو گندا رکھنا اس سوچ کا نتیجہ نہیں؟

حکومت بلوچستان نے جب صفاء کوئٹہ پروجیکٹ کا آغاز کیا تو اپنے وسائل کے تحت یہ کیا، میٹرو پولیٹن کی گاڑیاں، عملہ اور ورکرز اس منصوبے کے تحت دیے گئے۔ لیکن گاڑیاں تھیں بوسیدہ، اور ورکرز کاغذی۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے ہوشمندی سے شہر کو چار زونز میں تقسیم کیا اور ایک ایک کرکے صفائی کا آغاز کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن وزیراعلیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ بیک وقت چاروں زونز میں صفائی شروع کی جائے۔
یاد رہے، کوئٹہ میں روزانہ تقریباً 1800 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ اصل چیلنج روزمرہ کچرا نہیں بلکہ وہ لاکھوں ٹن پرانا کچرا تھا جو برسوں سے شہر کی گلیوں اور خالی پلاٹوں میں دفن تھا۔ یہ وہ گندگی تھی جسے نہ اٹھایا جاتا تو نیا کچرا اس کے اوپر نئی تہہ چڑھا دیتا، اور اگر پرانے کو پہلے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی تو روزمرہ کچرا سڑکوں پر پھیل جاتا۔ صفاء کوئٹہ اسی کشمکش میں ہے۔

یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ منصوبہ صرف کچرا اٹھانے کا ہے۔ انکروچمنٹ، نالوں کی صفائی یا دیگر شہری ترقیاتی کام تاحال میٹرو پولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کے ذمے ہیں۔ عوام اس فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ہر ذمہ داری اس پروجیکٹ پر ڈال دیتے ہیں، جس سے ناانصافی ہوتی ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت شہری اپنے حصے کا فرض نبھائیں۔ کچرا باہر نہ پھینکیں، عملے کے ساتھ تعاون کریں، شکایت سے پہلے حقائق کو جانیں۔ کیونکہ اگر یہ شہر ہمارا ہے، تو اس کی صفائی بھی ہماری ہے۔شہر صرف حکومتوں کے سہارے نہیں سنورتے، عوام کی سوچ، رویے اور تعاون سے چمکتے ہیں۔ کوئٹہ کو "لٹل پیرس” بنانے کا خواب تبھی شرمندۂ تعبیر ہوگا جب ہم سب اپنے حصے کی شمع روشن کریں۔ اور یاد رکھیں، تبدیلی باہر سے نہیں، اندر سے آتی ہے۔
کیا آپ تیار ہیں کوئٹہ کو واقعی اپنا شہر سمجھنے کے لیے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے