بلوچستان کے 99فیصد قبائلی لوگ ریاست کی گود میں بیٹھے ہیں،سرداراخترجان مینگل

گوادر:بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہا ہے کہ ریاست نے بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کے تمام دروازے خود بند کردی ہیں ہمارے لیئے صرف دوراستے رہ جاتے ہیں ڈاکٹراللہ نذر بن جائیں یا سرفرازبگٹی انہوں نے کہاکہ ہم نے ملک کے تمام اداروں کے ساتھ مل کر چالیس سال تک کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا،میں پارلیمانی سیاست سے مایوس ہوچکا ہوں،ریاست نے بلوچ ایتھکس کی ریڈلائن کراس کردی ہے،بلوچ سردار آدھا تیتر آدھا بیٹر بن گئے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی نجی ٹی وی سے کگفتگو کے دوران کیاسرداراخترجان مینگل نے بلوچ قبائلی نظام کے بارے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قبائلی نظام کے خلاف لوگ بات کرتے ہیں لیکن آج تک اس کے متبادل کوئی نظام نہیں لاسکے ہیں میں قبائلی نظام کو باز معاملات میں اچھا نہیں سمجھتا کیونکہ بدقسمتی سے قبائلی نظام کی جو اچھی روایت ہیں وہ ہم نے چھوڑ دی ہیں اور جو غیرپسندیدہ عمل ہیں وہ اپنائے گئے ہیں ابھی قبائلی سردار نہ تین میں ہیں اور نہ ہی تیرہ میں ہیں سردارآدھا تیترآدھا بٹیر بن گئے ہیں انہوں نے کہاکہ پہلے قوم اپنے لیئے خود سردار چنتے تھے لیکن اب سرکار لوگوں کو سرداربنا رہا ہے ڈپٹی کمشنر،سیکٹرکمانڈراور آئی جی ایف سی کے آفس میں سردارچن لیئے جاتے ہیں انہوں نے کہاکہ قبائلی نظام جسے پاکستان میں سرداری نظام کہا جاتا ہے یہ نظام سرداری اور قبائلی نہیں ہے بلکہ یہ قبائلی سسٹم کا ایک جزہے قوم اپنے منتخب کردہ شخص کے سر پر سرداری کا دستار رکھ کر اسے سرداربناتی ہے سردارکا کام صرف جرگہ میں بیٹھ کر فیصلہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی اسکی زمہ داری یہ ہے کہ وہ علاقے میں اپنی اجارہ داری قائم کرے اور صرف اور صرف مال و دولت جمع کرئے بلکہ اسکی سب سے بڑی زمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے قبائل کے اندر انصاف مہیا کرئے ہمیشہ غیرجانبدارنہ فیصلہ کرئے اور جو پرانے رسم ورواج ہیں انکی پاسداری کرئے انصاف پسند ہو،بہادر ہو جنگجو ہو،اپنے قبائل کا کمان کرئے اور دوسرے قبائل سے اپنے قبیلے کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرئے انکی مالی جانی تحفظ کو یقینی بنائے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قبائل کے حقوق کی بھی پاسداری کرئے اور ان کے خواتین اور بچوں کو بھی عزت دے انہوں نے کہاکہ قبائلی نظام ہمارے ثقافت کا حصہ ہے گوکہ اب اس میں کچھ خامیاں ہیں اور میں یہ نہیں کہتا کہ یہ نظام بلوچوں کے دکھوں کامداواہ ہے لیکن اس میں چند خوبیاں بھی ہیں۔سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بلوچ قبائلی نظام میں نواب کا تصور موجود نہیں ہے یہ انگریز کا دیا ہوا ٹائٹل ہے بلوچستان میں پہلے کوئی نواب نہیں تھا انگریزوں کے آنے کے بعد 1835میں نواب بھی وجود میں آگئے جو لوگ انگریزوں کے زیادہ وفادار تھے انہیں ٹائٹل دیا گیا انگریزوں نے اپنے من پسند لوگوں کو نوابی کے ٹائٹل دیئے اور دیکھا دیکھی میں خان محمود خان نے بھی لوگوں کو نوابی کا ٹائٹل دینا شروع کردیا نوابی ایک دوسرے میں منتقل نہیں ہوتی کسی کے والد کو اگر نوابی کا ٹائٹل دیا گیا اب ضروری نہیں ہے کہ اس کا بیٹا بھی نواب کہلائے لیکن ابھی سردار بھی سرکار بناتا ہے اور نواب بھی سرکار بناتا ہے اور نوابوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے اور اسی آڑ میں بلوچستان اور بلوچ ایتھکس کو کمزورکیا جارہا ہے،ایک سوال کے جواب میں سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ بیرونی یلغاربلوچستان اور بلوچ کی تاریخ کو مسخ کررہا ہے ہماری ثقافت کو مسخ کررہا ہے زبان اور روایات کو مسخ کررہا ہے اگر یہ تمام چیزیں کسی قوم سے نکال دی جائیں تو قوم باقی نہیں رہتا دوقومی نظریے میں بلوچ،سندھی،پنجابی اور پشتون کو تباہ کردیا گیا لیکن بلوچ اپنے قبائل اور ثقافت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور اسی پر فخر بھی کرتے ہیں اور ریاست نے یہ محسوس کی ہے کہ بلوچ کی ثقافت،زبان اور روایات انہیں ہر چیز سے جدا رکھتی ہے اور ممکن ہے کہ یہ جداگانہ پن بلوچ کو علیحدگی کی طرف لے جائے تو انہوں نے بلوچ کو اپنے ہی ثقافت اور روایات سے دور کردینا شروع کردیا۔انہوں نے کہاکہ میں یہ نہیں کہتا کہ خضدار انجیرہ کے واقعہ میں ریاست ملوث ہے لیکن ریاست کی خاموشی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں سے خوشی محسوس کرتی ہے تاکہ قبائلی نظام کو دنیا بھر میں بدنام کرئے قبائلی نظام میں دشمن کے گھروں پر حملہ کردینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن اب سردار یا نواب کے گھر کے سامنے سے ہی بلوچ خاتون کو اٹھاکر لے جایا گیا سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ قبائلی معاشرے میں اگر کسی عورت کو کوئی تکلیف ہوتی تو وہ کسی سردار کے گھر جاکر پناہ لیتی تھی لیکن اب حالت یہ ہے کہ بلوچ عورت خود سردار کے زاتی محافظ سے بھی محفوظ نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کھبی بھی یہ نہیں سنا ہے کہ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں کسی کے گھر میں گھس کر بندوق کے زور پر کسی بلوچ عورت کو اغوا کیا گیا ہو کم از کم میں نے اپنی پوری زندگی میں اسطرح کا کوئی واقعہ نہیں سنا ہے۔انھوں نے کہا کہ بلوچ معاشرے میں اگر کوئی عورت اپنی پسند کی شادی کرتی تھی یا کہ اسے کوئی تکلیف ہوتی تھی تو وہ پناہ لینے کے لیے سردار کے گھر جاتی تھی لیکن اب کوئی پریشان حال عورت کسی سردار کے گھر پناہ لینے کے لیے کیسے جائیگی جب اسکی عزت اسی سردار کے باڈی گارڈ سے محفوظ نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے 99فیصد قبائلی لوگ ریاست کی گود میں بیٹھے ہیں اور ریاست کی غلط کاریوں کو تحفظ دے رہے ہیں جبکہ ریاست انکی غلط کاریوں کو تحفظ دیتی ہے اور انہی کی وجہ سے ریاست نے بلوچ ایتھکس کی ریڈ لائن کراس کردی ہے گھروں پر چھاپہ مارکر خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور خواتین کو چھاونیوں میں لے جایا جاتا ہے 2019میں آوارن میں بلوچ خواتین کو چھاونی میں لے جاکر جیل کردیا گیایہ سب ہماری سیاسی پارٹیوں،قبائلی سرداراور سیاسی قیادت کی کمزوری کی وجہ سے ہورہے ہیں صرف سر پر پگڑی باندھنے سے کوئی سردار نہیں ہوتا سردار کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اپنے لوگوں اور اپنے زمین کی تحفظ کرو انہوں نے کہاکہ بلوچ قوم اب تبدیلی کی جانب جارہی ہے جبکہ سیاسی پارٹیاں اور سرداررکھے ہوئے ہیں۔سردار اخترجان مینگل نے کہاہے کہ مجھے اس ملک میں بلوچ کی بقا نظر نہیں آتا میں مایوسی کی آخری حد تک پہنچ چکا ہوں جہاں اب کوئی بھی گنجائش نہیں ہے اور میں پارلیمانی سیاست سے بھی مایوس ہوچکا ہوں انہوں نے کہاکہ ہم ریاست کے تمام زرائع آزمائے لیکن کوئی نتیجہ برامد نہیں ہو ا ا ورمیرا بی این پی کے دوستوں کو یہی مشورہ ہے کہ اگر کسی فوجی کرنل کو دینے کے لیئے ان کے پاس پچاس کروڑ روپے ہوں تو تب وہ پارلیمنٹ کے بارے میں سوچیں بصورت دیگر عوامی ووٹ سے پارلیمنٹ میں جانے کے راستے اب بند ہوچکے ہیں اور ریاست نے پارلیمنٹ میں جانے کے راستے خود بند کردیئے ہیں اب صرف دوراستے رہ جاتے ہیں یا ڈاکٹر اللہ نذر بن جائیں یا سرفرازبگٹی بنیں کوئی تیسرا راستہ موجود نہیں ہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جو سیاست اب نوجوان کررہے ہیں میں انکی کامیابی کے دعاگو ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے