پروفیسر عادل بھٹی ! ایک عہد ساز شخصیت
تحریر:ڈاکٹر طلعت شبیر
گزشتہ ہفتے جمعرات کا دِن ہمارے لیےاُداسی کا پیغام لیے طلوع ہوا ۔ گلاسگو (سکاٹ لینڈ)سےآنے والی ایک دِل خراش خبر ہمارے خاندان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گونجی کہ پروفیسر عادل بھٹی اپنے چاہنے والوں کو داغِ مفارقت دے کرخالقِ حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے ہیں۔زندگی اور موت کا باہمی تعلق اَزل سے ہے اور یقیناََ رہتی دُنیا تک رہے گا۔ زندگی موت کے تعاقب میں رہتی ہے اور ہر ذی رُوح کو ایک نہ ایک دِن موت کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی موت عام واقعہ نہیں ہوتی بلکہ اُن کی پھرپور انداز میں گذاری گئی زندگی اُن کی موت کو ایک بڑا واقعہ بنا دیتی ہے۔ اور ایسے لوگ کچھ لوگوں کی زندگی میں اتنے اہم ہوتے ہیں کہ اُن کے نہ ہونے سے خلا پیدا ہوتا ہے۔ یوں ایسے لوگوں کی موت ایک صدمہ ہوتی ہے اور اُن سے جدائی ایک گہرے گھاؤ کا سبب!اگر کبھی کوئی ایسا شخص دُنیا سے رخصت ہو جائے جو اپنے ارد گرد بسنے والوں کے لیے منفعت کا باعث رہا ہو تو ایسے شخص کی جدائی کا خلا بمشکل پُر ہو تا ہے۔ موت ایک فطری امر ہے مگر اچھے لوگوں کی زندگی اُن کو امر کر دیتی ہے۔
پروفیسر عادل بھٹی میرے والد اور والدہ دونوں کے فرسٹ کزن تھے لیکن میں نے اُنہیں ہمیشہ والدہ کی نسبت سے مامو ںکہہ کر مخاطب کیا۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو گاؤں میں اُن کے نام کا ڈنکا بجتا تھا اور ہر طرف پروفیسر عادل بھٹی کے چرچے تھے۔اُنہوں نے 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔اُ س وقت گاؤں میں میٹرک کی سند کے حامل لوگ بھی بہت کم ہوتے تھے اورجو تھے وہ پڑھے لکھے تصور کیے جاتےتھے۔ وہ بلا شبہ خاندان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے فرد تھے اور وہ دور پڑھے لکھے لوگوں بالخصوص اساتذہ اور پروفیسرز کی تکریم کا دور تھا۔ گاؤں کے چند سادہ سے گھروں میں ایک گھر پروفیسر عادل بھٹی کا تھا جس میں معاشیات ، سیاسیات اور تاریخ پر کتابوں کا ایک ذخیرہ ہوا کرتا تھا۔معاشیات میں ماسٹرز کے بعد وہ گورنمنٹ کالج جہلم میں لیکچرار ہوئے اور پھر گورنمنٹ کالج کلر سیداں میں معاشیات اور تاریخ کی تدریس کی جہاں وہ 1977 ء تک رہے۔
پروفیسر عادل بھٹی نے 1968 ء میںفیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء کے ردعمل میں اور ذوالفقار علی بھٹو کی محبت میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پھر زندگی بھر پیپلز پارٹی کی سیاست سے جُڑے رہے۔وہ پیپلز پارٹی کی ترقی پسندانہ زاویے ، انسان پر مرکوز سیاست اور روٹی کپڑا اور مکان کے معترف تھے اور اکثر ملاقاتوں میں اِن پر اظہار ِ خیال کرتے۔ وہ پاکستان میں جمہوریت اور آزادی کے نظریات کا پرچار کرتے رہےاور مشکلات کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہے۔ وہ سیاسی نظریے کے لیے مسلسل جدوجہد پر یقین رکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جلد ہی اُنہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور جمہوریت سے متعلق اپنے نظریات کے موثر اظہار کے لیے عملی سیاست میں شمولیت اختیارکی ۔ 1979ء میں وہ کچھ عرصہ کے لیے اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک ممتاز انگریزی اخبار کی ادارتی ٹیم میں شامل ہوئے اور اُس وقت کی حکومت کے غیر منصفانہ اقدامات کی مخالفت کرتے رہے۔ مئی 1981 ءمیں اُن کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اُنہیں معلوم ہو گیا کہ اُن کے لیے ایسے سیاسی خیالات کے ساتھ رہنا مشکل ہے تو اُنہوں ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ 1981 ء میں اُنہوں نے گلاسگو (سکاٹ لینڈ) میں سیاسی پناہ کی درخواست دی اور پھر پناہ مل جانے کی صورت میں وہاں مستقل رہائش اختیا ر کرلی ۔ گلاسگو میں رہتے ہوئے اُنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ اِنسانی حقوق کی کونسل کے بانی جنرل سیکرٹری تھے جس نے بے نظیر بھٹو کی رہائی کے لیے تسلسل سے احتجاج اور مظاہرے کیے تھے۔ 1983 ء میں اُنہوں نے لیبر پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کی تاکہ مقامی حکومت کی سطح پر بھی حصہ لیا جا سکے۔اُن کا اُٹھنا بیٹھنا وقت کی بڑی سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ ہوتا تھا۔وہ نیلسن منڈیلا سے مل چکے تھے اور سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے بہت قریبی ساتھیوں میں تصور ہوتےتھے۔ برطانیہ میںاُن کا نام بے نظیر بھٹو سے ملنے والوں کی فہرست میں شامل تھا۔جن گنے چنے پارٹی زعما ء کو بے نظیر بھٹو کی شادی کا دعوت نامہ ملا تھا اُس میں پروفیسر عادل بھٹی کا نام بھی شامل تھا۔
وہ پاکستان اور برطانیہ میں سیاسی، سماجی اورادبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ گلاسکو میں قائم سماجی اداروں میں فعال کردار ادا کیا اور اُن کی مختلف کمیٹیوں کے وہ سرگرم رُکن رہے ۔وہ گلاسگو میں موجود خیراتی اِداروں سے بھی منسلک رہے اُن کے ساتھ مل کر سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اُن کی شخصیت کا ادبی پہلو میرے علم میں بہت دیر سے آیا۔چند دِن پہلے جب اُن کی ہسپتال داخلے کی اطلاع آئی تو گلاسگو میں بہت فعال ادبی تنظیم بزم ِ شعر و نغمہ کی روحِ رواں محترمہ راحت زاہد سے میری گفتگو ہوئی تو اُنہوں نے بھی بتایا کہ پروفیسر عادل بھٹی ایک متحرک ادبی شخصیت تھے۔ وہ تسلسل کے ساتھ بزمِ شعر و نغمہ گلاسگو کے سرگرم رُکن رہے اور مشاعروں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے اور بزم کی ماہانہ ادبی بیٹھک میں اپنا کلام بھی سنایا کرتے تھے۔وہ تاریخ اور سیاست کے موضوعات پر دلیل اور شائستگی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے موقف کی تائید میںمستند حوالہ جات اور منطقی استدلال پر انحصار کرتے تھے ۔
پروفیسر عادل بھٹی میرے مامو ں تھے اور اُن کا میرے ساتھ پیارکا خصوصی رشتہ تھا۔ جب کبھی پاکستان آتے تو ایک بار ملاقات ضرور ہو جاتی۔ وہ میری علمی اور ادبی کاوشوں کے حوالے سے بہت خوشی کا اظہار کرتے۔ جب اُنہوں نے اپنی مشہور نظم ماں نی یاد لکھی تو مجھے فون کیا اور کہنے لگے میں نے پوٹھواری زبان میں ایک نظم کہی ہے ۔ تم سے شیئر کرتا ہوں تاکہ نظم پڑھ کر مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر سکو۔ میں نے جب وہ نظم پڑھی تو مجھےلگا کہ نظم پوٹھواری رہن سہن اور ثقافت کا خوبصورت عکس اور ماں کے ساتھ گذرے وقت کی خوبصورت منظر کشی ہے۔اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ ماں پر لکھی جانے والی ہر تحریر شاہکار ہو تی ہے مگر وہ نظم بلا شبہ ماں پر لکھی جانے والی ایک شاہکار نظم تھی۔ میں شام تک نظم کے سحر میں رہا۔ رات گئے میں نے اُن کو کال کیا اورکہا ماموں جان آپ کی نظم ماں نی یاد پوٹھواری زبان میں شاہکار نظم ہے۔ اور میری رائے ہے کہ اگر آپ اِس نظم کے بعد کچھ نہ بھی لکھ سکے تو یہ نظم آپ کو پوٹھواری زبان و ادب میں تادیر زندہ رکھنے کے لیےکافی ہے۔ میری رائے پر آپ بہت خوش ہوئے۔ بعد میں اُنہوں نے میری والدہ سے بھی میری اِس رائے کا ذکر کیا۔
آخری چند سالوں میں جب وہ پاکستان آتے تو زیادہ وقت گاؤں گزارتے۔ وہ گاؤں سے بہت محبت کرتے تھے اور اُن کی یہ محبت اُن کی شاعری اور گفتگو میں جھلکتی تھی۔ برسوں پہلے زندگی کے بے رحم تھپیڑے اُنہیں گلاسگو لےگئے لیکن اُن کا دِل ہمیشہ اپنے مٹی کے آنگن میں ہی بسا رہا۔ وہ چاہتے تھے کہ آخری سانس وہیں لیں جہاں ماں نے لوری سنائی تھی۔ وہیں مٹی کا بستر بچھے جہاں بچپن میں اُنہوں نے مٹی کے گھروندے بنائے تھے۔ جہاں بارش کی بوندوں میں وہ بھاگتے پھرتے تھے۔ اور جس کا اظہار اُنہوں نے اپنی شاہکار نظم میں بھی برملا کیا۔ آخری چند سالوں میں میر ی مختصر ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ اگر وہ اپنی کوئی آخری خواہش منوانے کا استحقاق رکھتے تو وہ شاید اپنی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش کرتے۔ رہا سوال موت کا تو ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہمیں بہر طور اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔