عدالتوں کے ساتھ ساتھ ثالثی کے نظام پر بھی توجہ دینا ہوگی،جسٹس منصور علی شاہ

کراچی (ڈیلی گرین گوادر)سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے آئی بی اے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتوں کے ساتھ ساتھ مصالحت اور ثالثی کے نظام پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر ایک لاکھ لوگوں کے لیے 90 ججز جبکہ پاکستان میں صرف 13 ججز ہیں، ہمیں 15 سے 20 ہزار مزید ججز کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت 2.4 ملین کیسز ضلعی عدالتوں میں زیر التوا ہیں جو 85 فیصد بنتی ہیں جبکہ پراسیکیوشن کورٹس میں 13 سے 14 فیصد کیسز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ججز کی تعداد کم اور کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے، انصاف تک رسائی ہر کسی کا بنیادی حق ہے مگر انصاف تک رسائی کا مطلب صرف عدالتوں تک رسائی نہیں بلکہ تنازعات کا مختلف طریقوں سے حل بھی ہے۔جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مصالحت اور ثالثی کا نظام بھی لوگوں کو فراہم کرے، یہ طریقہ انصاف کے نظام کا ہی حصہ ہے اور ہمیں اسے الگ نہیں سمجھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر کوئی انصاف کے لیے عدالتوں کا رُخ کرکے حکم امتناعی اور ضمانت کی درخواست کرتا ہے، ممالک اس طرح نہیں چلتے، ثالثی کامیاب نہ ہو تب ہی عدالتوں کا رخ کرنا چاہیے۔جسٹس منصور کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں تنازعات لے جانے سے رشتوں اور تعلقات میں دراڑ پڑتی ہے مگر ثالثی کے طریقے سے تعلقات برقرار رہتے ہیں، ہمیں اس نظام کو مرکزی حیثیت دینا ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے