تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کو ہم انصاف اور ملکی آئین کے خلاف سمجھتے ہیں،بی ایس او پجار

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بی ایس او پجار کے جنرل سیکرٹری ابرار بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا مقصد طلبا کی سیاسی فکری تربیت پر قد غن لگانا ہے جسے ہم عدالیہ کے جبر اور سیاسی مداخلت کے طور پر دیکھتے ہیں بلوچستان ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ یک طرفہ اور معتصبانہ ہے جس میں عدلیہ کی خود مختاری کو ایک طرف کردیا گیا ہے ہم تمام طلبا تنظیمیں مل کرکے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں بی ایس اوپجار کے دیگر رہنماوں کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ابرار بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ یک طرفہ اور معتصبانہ اقدام ہے جس میں عدلیہ کی خود مختاری یک طرف کردیا ہے اس نے اپنے فیصلوں میں آزادانہ طور پر رائے قائم کرنے کے بجائے ممکنہ طور پر حکومت اور یا غیر آئینی قوتوں کے دباو میں آکر یہ فیصلہ صادر کیا ہے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کو ہم انصاف اور ملکی آئین کے خلاف سمجھتے ہیں یہ فیصلہ عدالتی آزادیت اور خود مختیاری پر سوالیہ نشان ہے جسے ہم آمریت کے حامیوں کی جانب سے ملکی آئین کے خلاف ورزی کا ایک قدم سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے نے اس بات کو مزید تقویت دی کہ ریاستی ادارے نہ صرف جمہوری اقدار کی پامالی کررہے ہیں بلکہ ملکی آئین کی رو سے دیئے گئے حق اظہار رائے حق اجتماع اور حق تنظیم سازی کو محدود کررہے ہیں یہ فیصلہ ملک کے آئین کے آرٹیکل 15(آزادانہ نقل وحرکت کا حق)آرٹیکل 16(آزادانہ اجتماع کا حق) اور آرٹیکل 19(آزادانہ اظہار رائے حق) کے خلافورزئی ہے جو واضح طور پر طلبا کے سیاسی سماجی آزدیوں کی ضمانت دیتے ہیں یہ فیصلہ نہ صرف ملکی آئین سے متصادم ہے بلکہ یہ ملک میں مارشل لا کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے والی قوتوں کے ایجنڈے کو بھی تقویت دیتا ہے پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آمریت کا دور آیا ہے عدلیہ نے اپنے فیصلوں کو آمرانہ قوتوں کے تابع کیا ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں ہم تمام طلبا تنظیمیں مل کرکے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے