خاندانی نظام زندگی اور اس کے جدید مسائل بلوچستان کے تناظر میں
مقالہ نگار: پروفیسرڈاکٹرسیدہ مسعودہ شاہ
انسانی زندگی جو فرد سے شروع ہوتی ہے اور پھیل کر معاشرہ بناتی ہے۔اسلام نے معاشرے کی بنیاد خاندان کو قرار دیا ہے وہ ادارہ جو مضبوط ہوگا تو ایک مضبوط، صالح معاشرہ کا قیام یقینی ہوگا۔ خاندان کی بہتری اور بھلائی پر معاشرے کی بہتری اور بھلائی کی غمازہے۔ رقبے کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں کی 80فیصد آبادی دیسات میں رہتی ہے۔ آبادی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور کشادہ دیہاتوں میں عموماًمشترکہ خاندانی نظام رائے ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہے کہ بلوچستان میں خاندانی نظام اکثریت اور اپنی قدیم مشکل میں موجود ہے۔
خاندان بیرونی اور خارجی دباؤ کے معاملے میں افراد خانہ کے لیے۔ اخلاقی، نفسیاتی اور عملی پشت پناہی فراہم کرتا ہے۔ تاکہ وہ غیر متوازن شخصیت بن کر منفی رویے اختیار نہ کریں۔ اور معاشرے کے لیے افراد با وقار رویوں کے ساتھ اہم کردار ادا کریں۔ یہ معرفت و آگاہی خاندان تربیت کے ذریعے فرد کی شخصیت کا حقیت ہے۔
خاندانی نظام کی ضرورت و اہمیت:
کسی بھی تہذیب و تمدن اور قوم کا عروج و زوال اس خاندان کی تعمیر و تربیت پر اور مثبت کردار پر منحصر ہوتا ہے۔ اس لیے بجا طور پر خاندان کو پہلا ریاستی ادارہ قرار دیا گیا ہے۔اس لیے ہمارا مذہب اسلام نہ صرف ازدواجی تعلق کے قیام کی۔ ترغیب دلانے اور تمام دینی، اخلاقی معاشی اور معاشرتی اقدامات کرنے کی تلقین کرتا ہے جن، جن سے رشتے آپس میں سکون اور باہمی طور پر مستفید ہو سکیں۔جبکہ اس ادارہ کی مقصدیت واہمیت اس وقت خطرے میں پر جاتی ہے جب رشتہ کی اہمیت کا شعور کم ہو جائے۔
گھروں میں بڑھتے ہوئے جھگڑے، افراد خانہ کی باہمی رنجشیں احساس مروت کے بجائے جنم لیتی ہوئی نفرت و عداوت، رقابت اس ادارے (خاندان) کے حقیقی مقاصد و وظائف سے دور کر دیتی ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ سے لے کر آج کے متمدن معاشروں تک، خاندان کا تسلسل، بقا، ارتقاء ور پھیلاؤ برقرار ہے۔ چونکہ خاندان انسان کے جبلی، فطری، بدنی ضرورتوں کا نتیجہ ہے اس لییخودمذہب، نظریات اور افکار و او ہام کے فرق عظیم اور اختلافات کی وسیع خلیج کے باز نے کوئی زمانہ انسان پر ایسا نہیں گزرا کہ خاندان کی اکائی معدوم ہوئی ہو. میرا فرد اور خاندان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
بلوچستان کا خاندانی نظام و ساخت:
بلوچستان میں خاندانی نظام کی ساخت دین، تاریخ اورثقافت پر رکھی جاتی ہے بے شک زمانے میں تبدیلیوں کے اثرات سے خاندانی ادارہ بھی تغیر پذیر ہے مگر بلوچستان میں ابھی تک قدیم مشکل میں مشترکہ خاندانی نظام ہے رائج ہے۔ جبکہ جدا گانہ خاندانی نظام (مختصر خاندان) بھی شہروں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے اس سے پہلے کے مشترکہ یا جداگانہ خاندنی نظام کو لاحق خطرات و مشکلات کے حوالے سے بات کی جائے کچھ ذکر ان فوائد کا جو اس وقت مشترکہ خاندانی نظام سے حاصل ہو رہے ہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بزرگ موجود ہوتے ہیں جو اپنی روایات واقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں۔
۲۔ مشترکہ خاندانی نظام میں میاں بیوی میں علیحدگی کا خدشہ کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی تنازع پیدا ہو جائے تو خاندان کے بڑے معاملے کو سلجھانے میں مدد کرتے ہیں۔ میاں بیوی کا مقام و مرتبہ بھی اُن کو اس رشتہ کا احترام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
۳۔ والدین کو کہیں جانا ہو تو گھر میں بزرگ موجود ہوتے ہیں جو بچوں کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ یوں بچوں کے ساتھ ہونے والے حادثات سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے۔
۴۔ گھرکے اخراجات تمام کمانے والوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
۵۔ آپس میں تحمل و برداشت، رشتوں کا احترام اور قربانی کا جذبہ ان میں اخلاقی اقدار پیدا کر دیتا ہے۔
۶۔ خوشی غمی میں ایک دوسرے کا سہارا و ساتھ، امداد و تعاون سے غم کی شدت کم ہو جاتی ہے اور خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔ ۷۔مشترکہ خاندانوں میں خاندان کے مغرور، بیوہ اور مطلقہ افرادکی کفالت کا انتظام بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔
۸۔ مل جل کر تہوار منانے سے بچے اپنی روایات اور ثقافت سے روشناس ہوتے ہیں۔
۹۔ بچوں پر بڑوں کی نظر رہتی ہے اور وہ کئی قسم کی برائیوں سیمحفوظ رہتے ہیں
۰۱۔ مشترکہ خاندانی نظام ملازمت پیشہ خواتین کی مدد کرتا ہے۔
مشترکہ خاندان کے مصائب:
۱۔ غیر محرم مرد و عورتوں سے پردہ کا عدم اہتمام۔
۲۔ عورتوں پر کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔
۳۔ خاندان کے کچھ افراد پر معاشی بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔
۴۔ انسان کی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔
۵۔ حساب کتاب کی شفافیت نہ ہونے سے آپس میں کینہ و بعض جنم لیتاہے
۶۔ کمانے والوں کی تعداد کے مقابلے میں کھانے والوں کی زیادہ ہوتی ہے جو مزاج میں دوسروں پر اعصار کا رجحان بناتی ہے۔
۷۔ مشترکہ خاندانی نظام فعول فرضی اور لاپرواہی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ معالی معاملات مشترکہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص حال کو بے رضی سے استعمال کرتا ہے۔
۸۔ بعض اوقات ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے افراد ایک دوسرے کے ساتھ صدر رقابت کے جذبات رکھتے ہیں۔ اور بعض اوقات زوجین کے باہمی تعلقات پر کافی اثر انداز ہوتے ہیں۔
۹۔ ایک ہی فرد کی حاکمیت باقی افراد میں لیڈر شپ کی قوتوں کو سامنے نہیں آنے دیتا اور غلط فیصلوں کا باعث بھی بنتا ہے۔
۰۱۔ بہت سے اخلاقی عیوب مشترکہ خاندانی نظام کے باعث پیدا ہوتے ہیں جن میں احسان جتانا، جھوٹ بولنا، غیبت،بد گمانی کرنا، یا ہم فخر جتانا، عیب جوئی، ٹوہ لگانا وغیرہ۔
خاندان پر بیرونی و اندرونی دباؤ:
ماحول کے اثرات ہر ادارے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تو خاندان ھی بیرونی و خارجی دباؤ کے ساتھ ساتھ خود اندرونی دباؤ کا شکار ہے خاندان کے روایتی کردار میں جو کمی نظر آ رہی ہے اس میں اندرونی طور پر ہوتے ہوئے زمانے کے مطابق تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ اس میں خاندان کی روایت کو اپنے لیے ایک دشواری وبوجھ سمجھا جاتا ہے چند اندرونی عناصر جو اس نظام کو یا ختم کرنا چاہتے ہیں یا اس کو بوجھ سمجھ کر تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
i خاندان کی اہمیت میں کمی:۔
باہم افراد کا مل جل کر رہنا ایک دوسرے کے دکھ درد میں خوشی میں شریک ہونا۔ افراد کو سکون مہیا کرتا ہے۔ مگر آج افراد خانہ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں آپس میں عدم تو جہی کے رویے اس ادارے کو کمزور کر رہے ہیں۔
معاشرے میں برائیوں سے بچنے کا بھی حکم دیا گیا، اور خاندان اور معاشرے کے درمیان اعمال کی نوعیت طے کر دی ہے تو باسی تعلقات، احترام انسانیت اور حقوق کی ادئیگی کو معیار مطلوب قرار دیا گیا۔ مگر آج ہم قومی انتشار سے دو چار ہیں ہم نے کہا غلطیاں کیں اور مسلسل کیے جا رہے ہیں۔
اہل خانہ کے درمیان فاصلے، ایک ہی چھت اور اکثر ایک ہی کمرے میں رہ کر بُرے گمان اور شک و شہر میں مبتلا ہو کر الجھے نہیں پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے رویوں میں سرد مہری، کردار میں منافقت اور اعمال میں تنزل آ رہا ہے۔ ہماری ترجیح ضروریات پوری کرنا ہے، مفادات کے علاوہ ایثارو قربانی کے جس ماحول میں والدین نے پرورش کی تھی،اس کا ہم میں کچھ اثر نہیں آیا تو والدین کے رویے سخت ہو جاتے ہیں اور وہ اولاد کوبات کرنے نہیں دیتے خصوصا بیٹی اور بہن کو اپنے مافی الضمیر بیان کرنے کی گنجائش نہیں ملتی اور جبر و زبردستی کا ماحول خاندان میں عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
مرد کا حاکمانہ رویہ:
ایسے خاندان جہاں بیوی اور بچوں اور دیگر رشتہ داروں کے درمیان ہم آہنگی اور خوشگواری کا فقدان خانگی فضاء سرگرمی، جوش باہمی احترام و محبت سے خالی ہے۔ ایسے خاندانوں میں جہاں مرد کا آمرانہ رویہ اپنے فیصلوں سے اختلاف کو سنگین جرم سمجھتا ہے اور ایسے مجرم کو وہ خواہ بیوی و بیٹی ہی کیوں نہ ہو مؤجب سزا گردانا جاتا ہے۔ یہ نفسیات کے خلاف ہے۔ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے لڑکا اور خاندانی استحکام کو نقصان پہنچانے والا یہ ہے۔دوسری طرف اولاد نرینہ فیصلہ خود کر رہی ہے دونوں انتہاؤں کو ختم کر کے ملانے والے کردار کمزور ہو جانے سے خاندان ٹوٹ رہا ہے۔
عورت کی مظلومیت اور کردار:
اسلام خواتین کے جن حقوق و حیثیت کی بات کرتا ہے اگر وہ حقوق اورعورت کو مکمل طور پر عطا کر دیئے جائیں تو پھر معاشرے میں عورتوں کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ خاندان کے متعلق مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے کی عورت مظلومیت بے خبری، رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
قدیم جاہلی روایات، ہندو تہذیب کے اثرات اور اپنی فطرت و مزاج کے باعث طبقہ نسواں کی ایک بڑی تعداد بلا شبہ ظلم وز یادتی اور نا انصافی کی چکی میں پس رہی ہے اور اپنے اس تند و تلخ زندگی کو لو اپنا مقدر جان کر اپنی حالت پر صبر کر کے بیٹھ رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہے۔ آج بھی موجودہ پاکستانی معاشرے میں نوے فیصد عورتیں اپنے خانگی فرائض برضا و رغبت انجام دے رہی ہیں۔ وہ گھروں میں انسانی نسل کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی حتی الوسع اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔
بہت سی خواتین ان پڑھ اور جاہل ہونے کے باوجود بھی زندگی کی حقیقت اپنے کردار اور اس کے اصل مقصد کے حوالے سے بہت باشعور ہیں۔ بلا شبہ دینی تعلیمات سے محروم ہونے کے باعث معاشرے میں عورت پر زیادتی کی مثالیں موجود ہیں۔ہم ان کو اس رخ سے سند جواز بنا کو مغربی کلچر کو آواز نہیں دے سکتے۔ مجموعی طور پر ایسی مثالیں کم ہیں۔ پورے معاشرے کی اقدار کے حامل سسٹم کو رواج و جہالت کے نرغے سے نکالنا ہوگا۔ اگر عورت کی زندگی سے معیوب اور مضرر سوم کو دور کرنا صرف تعلیم و اصلاحی تربیت سے ممکن ہے۔
خاندان کو بچانے میں عورت لازمی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسی صلاحیت قدرت نے عورت کو دی ہے وہ سب کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے، وہ ہر دباؤ کو برداشت کر کے بچوں کو تحفظ اور گھر کو سکون دیتی ہے۔ لہٰذا عورت کی تعلیم و تربیت ضروری ہے۔
خاندان کے استحکام میں بیرونی دباؤ کا چیلنج:
آج دنیا میں ترقی و ٹیکنالوجی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اوراگران یہ ہے کہ اس دور میں خاندان کی روایت کو اپنے لیے ایک دشواری و بوجھ سمجھا جا رہا ہے معاشی مفاد کے حصول، میڈیاکی دسترس سے پرانا تصور ختم ہورہا ہے، گھر، گاؤں، علاقے بیرونی اثرات محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے گھر اب ہمارے نہیں رہے بلکہ ایک ایسی دنیا میں تبدیل ہوگئے ہیں جو مخصوص آبادی کے باوجود بہت وسیع ہیں۔ خیالات کو پر لگ گئے ہیں اور اُن کی پرواز کے نتیجے میں خاندان کے پرانے رسم و رواج ایک زبرست چیلنج کی زد میں ہیں۔
والدین کی حیثیت اب غیر متنازعہ نہیں رہی۔ اولاد نے تعلیم و ٹیکنا لوجی اور ترقی کے دور میں آنکھیں کھولی ہیں جب کہ والدین نے روایات واقدار اور اخلاقیات کی بنیادیں رکھی تھی۔
جن گھروں میں اس فرق کو ختم کرنے کے لیے کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔ وہ تو متصادم نہیں مگر اکثر خاندانوں میں اولاد والدین باہم متصادم ہیں اور بڑے طوفانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
مستقبل کا سوال:
مستقبل کا سوال معاملات کو برے انجام کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ سوال صرف معاشی نہیں ہے، یہ معاشرتی وتہذیبی اور سب سے بڑھ کر ایک مکمل انسانی سوال ہے۔ اولاد پنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتی ہے جب کہ والدین پوشیدہ تہذیبی اور خطرات کی بو سونگھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں خاندانی روایات، تقاضوں۔ قبائلی اور گروہی فیصلوں کی پابندی کرنا چاہتے ہیں اور نوجوان نسل تیز رفتار ترقی کے سامنے معاشرتی تناظر کو پسماندگی سمجھتے ہیں اور معاشرتی اقدار کو ترقی کے سامنے رکا وٹ سمجھتے ہیں۔ اس سے خاندان کی اتھارٹی کمزور ہو جاتی ہے اور کلچر کمزور ہو کر اندھی تقلید اور رویت سے دور ہو جاتا ہے۔
این جی اوز کا کردار:
ایک اور عوامل ہمارے گھروں پر اثر انداز ہو رہا ہے اور اس کے اثرات کا ذریعہ بھی یہی سول سوسائٹی اور اس کے ادارے ہیں۔ این جی اوز کا کردار اس حوالے نہایت اہم ہے۔ عورت کو کیا ہونا چاہیے،اس کا کردار کیا ہوناچاہیے، اس کے اختیارات کیا ہوں گے، وہ مرد کے مقابلے میں آئے گی یا مرد کی ساتھی بنے گی، وہ صنفی مساوات کا معاملہ کرے گی یا گھر میں کام کا ماوضہ طلب کرے گی۔
یہ کردار این جی اور معاشرتی روایات اور مذہبی اقدار کے خلاف عام لوگوں کی ذہن سازی ادا کر رہے ہے۔وہ معاشرے کے رفاعی کا موں کے آڑ میں ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جن میں ذہنی، فکری انار کی اور مغربی حکم کی راہ ہموار کرتا ہے اسلام میں جو تصورات طلاق، نکاح اوروراثت کے قوانین اور جرائم ہیں،ان کی مخالفت سب سے زیادہ ان این جی اوز کی طرف سے کی جارہی ہے۔ جس کو خاندان سے بغاوت در معاشرتی تخریب کاری سے ہی تعمیر کا جا سکتا ہے۔
حقوق نسواں کا نعرہ اور بیرونی سازش
پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک اور پسماندہ صوبے میں بھی خواتیں کے مسائل بہت کھیر شکل میں موجود ہیں جن پر بہت زیادہ توجہ درکار ہے۔ لیکن یہ (این جی اوز) متاوات مرد و زن کے نام لیوا کو عدالتوں کچہریوں تک لے جاتی ہیں۔ ایسی رپورٹس تیار ہوتی ہیں جن سے ا سلام اور قبائلی سسٹم کی بدنامی پوری دنیا میں ہوتی ہے۔ جبکہ جو واقعی انسانی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ملکی اور مذہبی معاملات کو خاندان اور جرگہ میں یا آپس میں حل کریں۔ شعور تعلیم سے آتا ہے تمام مسائل شعور اور بیداری سے حل ہو سکتے ہیں اگر حکومت اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ آپ باہر سے ترقی درآمد نہیں کر سکتے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ ان باہر سے آنے والی فنڈنگ سے (۰۰۱فیصد) ترقی لے آئیں گی تو یہ نا ممکن ہے۔
اسلامی تعلیمات سے لاتعلقی:
ہمارے خانگی امور میں آنے والی خرابیوں کی بڑی وجہ اسلامی معلمات سے یکسر لا تعلقی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے ہم بالکل خلاف اسلام بات کو اسلامی سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔ بچیوں کے معاملات میں ایسا کثرت سے کرتے ہیں۔ اسلام نے خاندان کے ہر فرد کے حقوق و فرائض کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ حقوق کا تعین فرائض کی تاکید سختی سے کیا ہے۔ جس میں کسی کی حق تلفی کی گنجائش نہیں۔مگر دین سے دوری اور اختلاط مرد و زن نے ہمارے لیے بعض مسائل وبحران بنا دیئے ہیں۔ گھروں میں جب تک حقیقی اسلامی تعلیمات کو نافذ نہیں کیا جائے گا تب تک خاندان کاادارہ مستحکم نہیں ہوسکے گا۔
تعلیم کی نوعیت:
تعلیم کو شجر ممنوعہ سمجھنے کا دوراگر چہ گزرچکا ہے لیکن نہایت روایتی گھرانوں میں ابھی بھی رکا وٹیں موجود ہیں۔ بلوچستان میں ایک سروے کے مطابق ۸۷ فیصد لڑکیاں سکول اور نہیں جاتی اور۴۴ فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ اس طرح تعلیمی شعور کے نہ ہونے سے خاندان چاہے وہ قبائلی سسٹم میں ہو یا جدید جدا گانہ دونوں اپنی اقدار و اخلاقیات کو نہیں پا سکتے، ہم ٹیکنالوجی کے حصول اور آسائش و سہولیات کے لیے گاؤں سے شہر آرہے ہیں اور ان فوائد سے ہمکنار بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن اسے قبول کرنے کے باوجود فیصلہ سازی، کردار سازی اور رویوں کی تشکیل پر اس کے اثرات ہم نے رد کر دیئے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ تعلیم اگر حاصل بھی کر رہے ہیں تو روزگار کا ذریعہ سمجھ کر۔ اس رجحان نے معاشرے کو تربیت اور کردار کے حوالے سے وہ کچھ نہیں دیا جس کی ایک نئی آزاد قوم کو ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بحران ہے جو خاندانوں کو تعلیم کے نام پر تقسیم یا بکھررہا ہے۔ مگر خاطر خواہ نتائج (اخلاقیات و اقدار نہیں نظر نہیں آرہے۔
چند گزارشات:
l در حقیقت ملک بھر میں خاندانی نظام زندگی کو بہتر کرنا ضروی ہے جیسا کہ معاشرے کی اچھی تعمیر کے لیے افراد خاندان کی کردار سازی ضروری ہے۔
l جس خاندان کے افراد میں باقی تعاون حقوق و فرائض کی جس ادائیگی ایثار، اتحاد و محبت ہو وہ خاندان میں قوم کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔
l مدرسے ا سکول اور دیگر تربیتی ادارے خاندان کے استحکام اور مسائل کے حل کے لیے آگاہی پھیلائیں۔
l علما ئے دین خطباء اور مساجد میں اپناکردا ر اداکریں۔
l تنازعات میں فیصلہ کرتے ہوئے مردوں کے ساتھ عورتوں کی شکایات کا ازلہ بھی کیا جائے نیز علاقائی رسم ورواج سے پہنچنے والے نقصان کو روکاجائے۔
l گھروں میں مشقت، بچوں کی شادی اور بنیادی تعلیم کی کمی جیسے مسائل پر حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ معیار زندگی اور صحت و بنیادی ضروریات زندگی حاصل ہوں جو اکثر گھریلو نا چاتی کاباعث بنتی ہیں۔
l صنعتوں، خاص طور پر گھریلو دستکاری اور پانی بھی مویشیوں کے لیے حکومت آسان قرض دے کر خاندانوں کو نقل مکانی سے روک سکتی ہے۔
l ذہنی صحت کے حوالے سے اور اکثر صحت کی سہولتیں نہ ہونا بھی خاندان کے استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے۔
l شہریوں کے سماجی و معاشی حقوق کو یقینی بنانے کے ذریعے ہی خاندان کو استحکام مل سکتا ہے سماجی تحفظ کے لیے امن و عامہ اور انصاف و تحفظ بھی معاشرتی ادارے کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔