بلوچ قومی تاریخ میں مستونگ کا ایک بلند مقام ہے،ساجد ترین ایڈوکیٹ
مستونگ (ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان نیشنل پارٹی ضلع مستونگ کے ضلعی کونسل کا اجلاس اور ضلعی کنونشن بیاد شہدائے مستونگ، ٹاؤن ہال میں پارٹی کے ضلعی آرگنائزر حاجی محمد انور مینگل کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مہمان خاص پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈوکیٹ، اعزازی مہمانان پارٹی کے مرکزی لیبر سیکریٹری موسی بلوچ، مرکزی کسان سیکریٹری میر نذیر احمد کھوسو، مرکزی ہیومن رائٹس سیکریٹری و سابقہ ایم پی اے حاجی احمد نواز بلوچ، سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اراکین و ضلعی صدر بی این پی کوئٹہ غلام نبی مری، حاجی باسط لہڑی، ٹکری شفقت اللہ لانگو اور ڈاکٹر اسما منظور بلوچ تھے۔ اجلاس کی کاروائی ضلعی ڈپٹی آرگنائزر علی بلوچ نے سرانجام دی جبکہ تلاوت کلام پاک کی سعادت انور بلوچ نے حاصل کی۔ اجلاس کے آغاز میں شہدائے مستونگ اور شہدائے بلوچستان کے عظیم قربانیوں کی یاد میں تمام حاضرین نے ایک منٹ کھڑے ہو کر خاموشی اختیار کی۔ اس موقع پر ضلعی سیکریٹری رپورٹ ضلعی ڈپٹی آرگنائزر علی بلوچ نے پیش کیا جو مستونگ میں پارٹی کی سیاسی، سماجی، علاقائی، تنظیمی امور اور دیگر کارکردگی پر مشتمل تھا جس کے بعد طویل بحث مباحثہ ہوا تاکہ پارٹی کی خامیوں اور کمزویوں کو دور کرکے پارٹی کو مزید فعال متحرک اور سرگرم بنایا جا سکے۔کنونشن میں دوستوں نے مثبت تجاویز پیش کیں اور آئیندہ کا لائحہ طے کرنے کے لئے سیر حاصل گفتگو کی گئی اور دیگر علاقائی و بین الآقوامی مسائل کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا اور حکمت عملی پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر ساجد ترین ایڈوکیٹ، میر نذیر احمد کھوسو، احمد نواز بلوچ، غلام نبی مری، حاجی باسط لہڑی، ٹکری شفقت اللہ لانگو، ڈاکٹر اسما منظور بلوچ، ضلعی آرگنائزر حاجی محمد انور مینگل، میر نجیب اللہ جتک، لالا غفار مینگل، ذاکر حسین بلوچ، ماما ظہور احمد بلوچ، ٹکری باسط ابابکی سمیت دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ بلوچ قومی تاریخ میں مستونگ کا ایک بلند مقام ہے یہ ایک تاریخ ساز اور زرخیز سرزمین ہے جس نے ہمیشہ بلوچ قومی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور بلوچ قومی ریاست کی تشکیل کے لئے نامور مفکرین اور قابل افتخار فرزندوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اس خطے میں بلوچ قومی سوال، جمہوری آئینی حقوق کے حوالے سے قید و بند کی سعوبتیں کاٹی اور تکالیف و مشکلات کا سامنا کیا بلوچوں پر ڈھانے والے مظالم اور نا انصافیوں کو اجاگر کرنے اور مزاحمتی فکر کو پروان چڑھانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کئے۔ 1920 میں انجمن اتحاد بلوچاں کی بنیاد گزاری کے علاوہ مختلف ادبی و سیاسی رسائل کا اجرا بھی مستونگ سے کی گئی۔ مقررین نے کہا کہ 1920 میں انجمن اتحاد بلوچاں کی بنیاد رکھی گئی یہاں کے اکابرین نے آنے والے چیلنجز اور تبدیلیوں اور حالات و واقعات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے جو حکمت عملی اور طریقہ کار جو قومی جمہوری ساحل و وسائل واگ و اختیار اور محکوم اقوام کی انگریز استعمار کے خلاف اور یہاں کے بلوچستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت اور سٹریجیٹک لوکیشن کے حوالے سے اس مستونگ نے ایسے فرزندوں کو جنم دیا جو ہمیشہ اس تاریخ میں اس وطن پہ فخر کرتے ہیں اور ان کے مشن کو اپنا فرض سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بی این پی انہی جدوجہد کا تسلسل ہے جس کی بنیاد 1920 میں ہمارے عظیم اکابرین نے رکھی تھی جو اس خطے میں اس وطن میں بلوچوں اور دیگر مظلوم و محکوم قوموں کے لئے اس کا ایک بڑا گرفت اور ایک نظر ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والے چیلینجز اور حالات و واقعات ہے اس پر پارٹی کے دوستوں کو مزید پارٹی کو منظم اور فعال پارٹی کی فکری اور نظریاتی سیاست کو تقویت دینا ہوگا اور دن بدن یہاں کی حالات خاص کر قومی سوال، جمہوری سوال کو کمزور کرنے کے لئے استحصال، لوٹ کھسوت و دیگر نا انصافیوں کا نا رکنے والا تسلسل ہے ظلم و جبر ہے سیاسی کارکنوں کا ٹارگٹ کلنگ، مسخ شدہ لاشیں، بلوچستان کے انسانی حقوق کی پامالیاں کا جو وہ ہے یہاں آج بھی آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اس خطے کی وطن اور وسائل پر ان تمام قوتوں کی نظریں ہیں جنہیں اپنی معاشی مفادات اور یہاں کی منڈیوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنے آمرانہ و استحصالی نظام کو تقویت دینا ہے انہیں یہاں کے بلوچ و دیگر سن آف سوائلز کی ترقی و خوشحالی اور ان کی بقا و تشخص و تحفظ و سلامتی اور انکی اس کے حوالے سے کوئی سروکار نہیں ان کی نظریں یہاں کے وسائل پر ہیں چونکہ بی این پی کا بیانیہ واضح ہے بی این پی نے ہمیشہ یہاں پر چاہے نام نہاد جمہوریت کا دور رہا ہو یا آمریت کا دور رہا ہو پارٹی نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی ہے اصولوں پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا اور ملکی سطح پر ان تحریکوں اور اتحاد اور جدوجہد میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا جو اس ملک میں قومی اور آئینی کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی سپرمیسی اور دیگر ان کی ایک
تاریخی کردار ہے نظر ہے گرفت ہے۔ اس کی پاداش میں بی این پی وہ جماعت ہے جس کی درجنوں کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کیا گیا پابند سلاسل اور انہیں لا پتہ کرا کر پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے تسلسل کا حصہ آج بھی جاری و ساری ہے لیکن بی این پی کو یہ کریڈٹ یہ فخر کا مقام حاصل ہے کہ یہاں کے پارٹی دوستوں نے کارکنوں نے ثابت قدمی ہمت و مستقل مزاجی خندہ پیشانی کے ساتھ عظیم قومی راہشون سردار عطا اللہ خان مینگل کی فکر و نظریات سے وابستہ رہ کر اور قومی تحریک کے سرخیل رہنما سردار اختر جان مینگل کی مدبرانہ قیادت میں جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے وہ سرزمین ہے کہ دیگر اکابرین کے ساتھ ساتھ اس خطے میں ہماری پارٹی کے رہنماؤں شہید چیئرمین منظور بلوچ، شہید ملک نوید دیہوار، شہید یوسف لہڑی، شہید میر نور اللہ شاہوانی اور دیگر شہدا نے پارٹی کے سہ رنگی بیرق کے تلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور مستونگ کے شہریوں کو مشکل اور تکالیف کے حالات میں تن و تنہا نہیں چھوڑا۔ مقررین نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ پارٹی مستونگ کو منظم و فعال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جب تک کہ مثبت اور مضبوط پارٹی کے بغیر ہم اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم جدید بنیادوں پر پارٹی کو استوار کر کے وقت اور حالات اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے لئے گھر گھر گلی گلی جا کر از سر نو پارٹی کی فعالیت، پارٹی کو میرٹ اصول نظریات، ڈسپلن فکری نظریاتی سوچ و فکر کو پروان چڑھانے کے لئے ہمیں مشکلات تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آنے والی تاریخ آنے والی نسل اور قومی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ اگر اس میں ہم نے کوئی کمزوری کوتاہی کی تو یقینا تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور بی این پی وہ واحد یہاں کی بلوچستانی عوام کی امید کی کرن ہے جو اس ملک میں اس قوم کو تکالیف سے نجات دلا سکتی ہے اس موقع پر آخر میں تین رکنی الیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے آرگنائزنگ کمیٹی کی کاوشوں کو سراہا جنہوں نے ملک میں اس استحصالی اور بحرانی انتشار کی صورت میں پارٹی کو جوڑے رکھا اور خوف و ہراس کی ان تمام دباؤ کی پروا کیے بغیر پارٹی کو تنظیمی طور پر منظم کیا اور آج ایک کامیاب کنونشن کروایا انہوں نے دوستوں کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا آخر میں موسی بلوچ کی سربراہی میں تین رکنی الیکشن کمیٹی کا اعلان کیا گیا جس میں سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر و ضلعی صدر بی این پی کوئٹہ غلام نبی مری اور سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر حاجی باسط لہڑی کمیٹی کے ممبر تھے انہوں نے جمہوری پروسیس اور ایک فری اینڈ فیئر انداز میں الیکشن شیڈول کا اعلان کیا پہلے فیز میں کاغذات نامزدگی، دوسرے فیز میں کاغذات واپس لینا اور حتمی فہرستیں جاری کیں اور سیکورٹنی کرانے کے بعد حتمی امیدواروں کے ناموں کا اعلان کروایا اور اس کے بعد تمام دوستوں نے اس پراسیس میں اس عمل میں حصہ لیا کیونکہ بی این پی ایک سیاسی جمہوری جماعت ہے جو حقیقی پارٹی کے آئین و منشور اغراض و مقاصد اصول ڈسپلین اور نظم و ضبط پر یقین رکھتی ہے انہوں نے الیکشن شیڈول کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں دوستوں نے باہمی مشاورت کے بعد بلا مقابلہ مستونگ کابینہ کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس کے بعد الیکشن کمیٹی کے چیئرمین موسی بلوچ نے نو منتخب کابینہ کا اعلان کیا جس میں صدر حاجی محمد انور مینگل، سینئر نائب صدر میر احمد نواز ابابکی، جونئیر نائب صدر ملک عبدالصمد مینگل، جنرل سیکریٹری میر فرید احمد مینگل، ڈپٹی جنرل سیکریٹری ٹکری نور احمد قمبرانی، جوائنٹ سیکریٹری محمد اکرم لودھی، انفارمیشن سیکریٹری مطلب قلندرانی، پبلیکیشن سیکریٹری کامریڈ منیر آغا بلوچ، لیبر سیکریٹری منظور لہڑی، فنانس سیکریٹری مام ظہور احمد لہڑی، خواتین سیکریٹری مریم بلوچ، کسان سیکریٹری محمد زمان مینگل، ماہی گیر سیکریٹری وحید احمد شاہوانی، انسانی حقوق سیکریٹری لیاقت علی اور پروفیشنل سیکریٹری ریاض احمد کامیاب قرار پائے۔ آخر میں پارٹی کے دوستوں نے نئے منتخب شدہ کابینہ کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ پارٹی کو منظم بنانے بھر پاور اور تمام جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے اس موقع پر پارٹی کے نصیر آباد کے دوست کامریڈ ماما حیدر چھلگری، کامریڈ رفیق بلوچ اور بی این پی کوئٹہ کے سلیم چند سمیت دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭