انسانی حقوق کی پاسداری اور فروغ کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے،سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) چیئرپرسن سینٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں انسانی حقوق کی پاسداری اور فروغ دینے کے لیے اجتماعی کوششوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی فراہمی ایک منصفانہ جامع اور پرامن معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔وہ انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ اقوام متحدہ کے 2024 کے موضوع”ہمارے حقوق‘ ہمارا مستقبل‘ابھی“ پر روشنی ڈالتے ہوئے چیئرپرسن قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انسانی حقوق کی پاسداری ایک پائیدار اور خوشحال مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق صرف قابلِ حصول مقاصد نہیں بلکہ وقار مساوات اور انصاف کے لیے بنیادی ستون ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا مستقبل ان حقوق کو بلا تفریق تمام افراد کے لیے یقینی بنانے پر منحصر ہے۔انہوں نے کہا کہ آج انسانی حقوق کا عالمی دن ہے اور،یہ دن منانے کا مقصد انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کی پامالی کو روکنا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا میں انسانیت اور انسانی حقوق کی بات تو بڑے بڑے فورم پر کی جاتی ہے لیکن عملدرآمد نہ ہونے اور انسانیت اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کی دوغلی پالیسی پر انسانیت خون کے آنسو روتی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی بربیت آج انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کسی کو نظر نہیں آئی۔کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہزاروں بے گناہ فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے بھارت میں کشمیریوں پر جاری ظلم و ستم پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت دوسری بڑی تنظیموں نے فلسطین میں جاری ظلم کے خلاف مضبوط آواز نہیں اُٹھائی جبکہ طاقتور امریکہ اور اسرائیل بڑی ہٹ دھرمی سے معصوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف خود ساختہ جاری جنگ کو روکنے کو تیار نہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے انسان آج بھی اپنے حقوق کیلئے سرگرداں ہے اور ہر جگہ اپنے سے زیادہ طاقتوروں کی دہشت گردی اور جارحانہ عزائم کا شکار ہے جس کی زندہ مثال فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا کے کئی خطے ہیں جہاں دن رات انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور طاقتور اپنے سے کمزور پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں لیکن عالمی ادارے اس سلسلے میں تقریروں اور بیانات تک محدود نظر آتے ہیں۔ ان مظالم کے خلاف ان اداروں کی خاموشی انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے مزید کہا کہ کشمیر، فلسطین،شام،برما،لبنان،بوسنیا،روہنگیا،افغانستان یعنی مشرق سے لیکر مغرب تک اور شمال سے لیکر جنوب تک عالمی ضمیر کی بے حسی کی منہ بولتی تصویریں ہیں جن کی سسکیوں میں گونجتی یہ صدائیں واضح سنی جا سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے وطن پاکستان پر نظر دوڑائیں تو انسانی حقوق کی صورتحال یہاں بھی کوئی اچھی نہیں۔طاقتور حلقوں نے پسے ہوئے اور نچلے طبقے کے لئے زندہ رہنے کی طاقت بھی چھین لی ہے۔معاشرہ میں انسانی بنیادی حقوق کو عنایات کا نام دیکر غریبوں اور کمزوروں کو زر خرید غلام بنا لیا جاتا ہے حالانکہ عوام الناس کے حقوق کے تحفظ کیلئے بے شمار ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں لیکن جب کہیں کوئی کمزور پر ظلم ہوتا ہے تو سبھی غائب ہوجاتے ہیں یا دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں کیونکہ غریب اور امیر دونوں کے لئے قانون و انصاف کی حکمرانی کی صورتحال بھی سوالیہ نشان ہے۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ اگر آج ہم واقعی خوشحال اور پر امن معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں غریب اور امیر کے فرق کو مٹا کر دیانتداری اور قانون و انصاف کی بلا تفریق عملداری کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی قانون و انصاف کی بلاتفریق عملداری سے ہی ممکن ہے اور اس مقصد کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔