پشتونوں اور بلوچوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جنہیں مل بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے،نواب ایاز جوگیزئی
سبی(ڈیلی گرین گوادر)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری نواب محمد ایاز جو گیزئی نے سبی ڈویژن کے عوامی جر گے سے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ باکردار اور صاف لو گوں کے ذریعے اپنے فیصلے خود کر نے کا فیصلہ کیا ہے،عدالتوں میں معمولی معمولی جھگڑوں پر غریب لو گ اپنی جائیدادوں سے محروم ہو جا نے کے باوجود بھی انصاف ملنے سے محرم ہوتے ہیں۔ ہمارے اکابرین نے انگریزی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی قربانیاں دیں لیکن اس کے باوجود ہم آج تک حقیقی آزادی سے محروم ہیں،جہاں جہاں معدنیات دریافت ہوتی ہیں وہاں پہلے دہشت گرد پہنچ جا تے ہیں دہشت گردی شروع ہو جاتی ہے پر دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے سیکورٹی فورسز آجاتے ہیں لیکن عوام اب سب کچھ سمجھ چکے ہیں۔بہتر یہی ہے کہ ناکام پالیسیوں کو ترک کر کے عوام دوست پالیسیاں تشکیل دی جائیں، ملک جب سے بنا ہے تب سے اس سے سنبھلنے پنپنے اور صحیح طرح سے چلنے نہیں دیا گیا۔ پشتونوں اور بلوچوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جنہیں مل بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے۔پشتون اپنی تاریخی سر زمین جبکہ بلوچ اپنی سر زمین پر آباد ہیں۔بنوں جر گے کے فیصلوں پر عملدرآمد کر تے ہوئے تمام ڈویژنوں کے جر گے مکمل کر کے اپنے عوام کی مرضی ومنشا کے مطابق اہم فیصلے کر ینگے۔ اپنے وطن کے زمینوں اور قدرتی وسائل کی دفاع ہر قیمت پر کرینگے۔نواب محمد ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ پشتونخوا وطن کے وسائل کے لوگ شیر مادر سمجھ کر لوٹ رہے ہیں جن کے تدارک کیلئے ہم نے اپنے قوم کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پشتونخواوطن میں رہنے والے تمام قبیلوں کے معتبرین کے پاس جا کر انہیں منارہے ہیں اور آخر میں سب کی تجاویز کو اٹھا کر کے اہم ترین فیصلے کرنے جا رہے ہیں تاکہ کسی کو گلہ نہ ہو کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہم انگزیزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد مزید پستی کی طرف چل پڑے ہیں ہمارا عدالتی نظام تباہ ہے انصاف کا ملنا عوام کیلئے نا ممکن ہو چکا ہے۔ہم فارم47 کے سہولت کاروں، چوروں، ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر ہیں جو لو گ چوری کر کے اقتدار میں آئے ہوں عوام کے بنیادی حق ووٹ پر ڈاکہ ڈال کر ممبر بننے ہوں ان سے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنے کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔گزشتہ الیکشن میں ان لو گوں نے پاکستان کے تینوں نعروں کو مسخ کر دیا نہ یہ ملک اسلامی رہا،نہ جمہوری اور نہ ہی پاک لو گوں کا ملک۔ نواب محمد ایاز خان جو گیزئی نے کہا کہ اگر چہ ہم ذاتی طور پر اتنے سخت لو گ ہیں کہ ہم نے آپس میں ایک دوسرے کو ایک درخت، ایک تالاب، ایک فٹ زمینوں پر جھگڑے کر کے ایک دوسرے کو مارا ہے لیکن آج ہماری لا کھوں ایکڑ زمین کو لوگ آلاٹ کر رہے ہیں ہمارے وہ پہاڑ جہاں معدنیات دریافت ہو جا تے ہیں وہاں پرائے لو گ الاٹمنٹ کر تے ہیں اور مائننگ کر تے ہیں لیکن زمینوں کے مالکان دیکھتے ہی رہ جا تے ہیں اس ملک میں پشتون اور بلوچوں کیساتھ تیسرے درجھے کے شہری کا سلوک کیا جا تا رہا لیکن اب تو اسلام آباد کے سڑکوں کو پشتونوں کے خون سے نہلایا گیا۔ایسی خطرناک صورتحال میں پشتون عوام باالخصوص اور پشتونخوا وطن میں آباد تمام اقلتیں بالعموم جر گوں میں شرکت کر کے ہمیں تجاویز دیں اب ہم میں مزید ظلم سہنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ سوئی گیس کو پوری پنجاب اور سندھ میں اتنا استعمال کیا گیا کہ یہ اب ختم ہونے کے قریب ہے لیکن آج بھی پشتون بلوچ علاقوں میں گیس نہیں، خیبر پختونخوا کے کرک میں گیس دریافت ہوا پہلا پائپ لائن پنجاب لے جایا گیا صرف جنوبی پشتونخوا میں 28 قسم کے قیمتی معدنیات نکالے جا رہے ہیں لیکن ہمارے نوجوان دوسرے وطنوں میں مزدوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج بھی اگر ہم چائینز، یورپین یا دیگر اقوام کے ساتھ کنٹریکٹ کریں کہ وہ ہمارے معدنیات نکالیں اور ہمارے وطن کے بچوں کو انکا اپنا حصہ دیں تو ہم معاشی طور پر آباد ہو سکتے ہیں۔ پشتون نوجوانوں کو مزید منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے تاکہ اس ناسور میں مبتلا ہو کر اپنا سب کچھ کھو دیں۔نواب ایاز خان جو گیزئی نے کہا کہ صرف اتحاد واتفاق بھائی چارے سیاسی شعور ہی کے ذریعے ہی ہم اپنے وطن کے وسائل پر اختیار حاصل اور اپنے آئندہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ہمارا بلوچوں کے کسی بھی علاقے پر دعویٰ نہیں نہ ہی بلوچ کے درمیان جو چھوٹی چھوٹی مشکلات ہیں انہیں ہم مل بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں کیونکہ بلوچ بھائی کا ملک میں برابری کے حق کا جو دعویٰ ہے اتنا ہی ہمارا دعویٰ بھی صوبے میں بلوچ کے ساتھ برابری کا ہے اگر ریاست کے لحاظ سے دیکھا جائے تو باپ کے جائیداد میں چھوٹے بیٹے اور بڑے بیٹے کا حصہ برابر ہو تا ہے۔ نواب محمد ایاز خان جو گیزئی نے تمام آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کامیاب جر گے کے انعقاد پر انہیں مبارکباد دی۔