بلوچستان اسمبلی اجلاس،وفاق کو دھماکہ خیز مواد سے متعلق قانون سازی کرنے کی آئینی قرار داد سمیت تین قرار داد یں منظور

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وفاق کو دھماکہ خیز مواد سے متعلق قانون سازی کرنے کی آئینی قرار داد سمیت تین قرار داد یں منظور، اسمبلی نے بلوچستان سیکورٹی آف ولناریبل اسٹیبلمشنٹ کا قانون منظور کرلیا، نومنتخب رکن اسمبلی نے حلف اٹھا یا۔جمعرات کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر عبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔اجلاس کے آغاز پر اسپیکر عبدالخالق اچکزئی نے بلوچستان اسمبلی کے نو منتخب رکن سردار زادہ میر کوہیارڈومکی سے رکنیت کا حلف لیا۔ اسپیکر نے اپنی اور ایوان کی جانب سے انہیں مبارکباد بھی پیش کی۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری، صوبائی وزراء میر صادق عمرانی، میر عاصم کرد گیلو، میر سلیم کھوسہ، ارکان اسمبلی زمرک خان اچکزئی، خیر جان بلوچ نے نو منتخب رکن کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈومکی خاندان کی صوبے کے لئے گراں قدر خدمات ہیں انکے دادا میر چاکر ڈومکی مرحوم، والد میر سرفراز ڈومکی مرحوم نے اسمبلی اور قبائلی طور پر گراں قدر خدمات سرانجام دیں عوام نے جس اعتماد کے ساتھ کوہیار ڈومکی کو منتخب کیا ہے ان کی ذمہ داری ہے وہ انکے اعتماد پر پورا ترتے ہوئے علاقے کے لئے کام کریں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ نو منتخب رکن بھی اپنے اباؤ اجداد کے نقش قد م چلیں گے۔وزیراعلیٰ، صوبائی وزراء سمیت تمام اراکین نے انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔ اجلاس کے دوران نیشنل پارٹی کے رکن میر رحمت صالح بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھاگ میں نیشنل پارٹی کے رہنماء اکبر بلوچ کے قاتل تاحال گرفتار نہیں ہوئے نامزد کرنے اور لوکیشن ٹریس ہونے کے باوجود ملزمان کو پولیس گرفتار کرنے سے قاصر ہے جبکہ ملزم نے اراکین اسمبلی کو دھمکی آمیز ویڈیو میسج بھی بھیجا ہے نیشنل پارٹی یکم یا دو دسمبر کو ڈی پی او کے خلاف دھرنا دیگی۔ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے اراکین کو دھمکی دینے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ ملزمان کے خلاف کاروائی کی جائیگی جبکہ غفلت برتنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی۔ اجلاس میں وفاق کو دھماکہ خیز مواد سے متعلق قانون سازی کرنے کی قرارداد پیش کئے جانے سے قبل نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مخالفت کرتے ہوئے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔اسپیکر نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو آگاہ کیا کہ آئینی قرارداد کمیٹی میں نہیں جاسکتی ۔قائد ایوان میر سرفراز بگٹی نے وضاحت کی کہ 18ویں ترمیم کے بعد دھماکہ خیز مواد کا معاملہ صوبوں کے پاس تھا جس پر ہر صوبے نے اپنے قوانین بنائے جس کی وجہ سے ہم آہنگی پیدا نہیں ہورہی تھی بلوچستان میں مائننگ کے لئے استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد دہشتگردی کے واقعات میں بھی استعمال ہوا جس کے بعد بلوچستان کے سو ا تمام صوبوں نے وفاق کو یکساں قانون بنانے کے لئے اختیار دیا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ کی وضاحت کے بعد اپوزیشن نے اپنا اعتراض واپس لے لیا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر بخت محمد کاکڑ نے آئینی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین مجریہ 1973ء کے آرٹیکل 144کے تحت مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) کو اختیار دیتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد سے متعلق قانون سازی کرے جو صوبہ بلوچستان میں نافذ العمل ہواوراس بابت قومی حکمت عملی بھی وضح کرے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی مزید قرارداد پیش کرتی ہے کہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)نئی قانون سازی میں ایک مزید شق برائے تحفظ شامل کرے جو بلوچستان کی صوبائی حکومت کے متعلق صوبائی قوانین کے تحت بعنوان بالا اٹھائے گئے تمام تر اقدامات کو تحفظ فراہم کرے تاوقتیکہ نئی قانون سازی نافذالعمل ہو۔ایوان نے قرار داد کو منظور کرلیا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر بخت محمد کاکڑ نے بلوچستان سیکورٹی آف ولناریبل اسٹیبلمشنٹ کا قانون پیش کیا جسے منظور کرلیاگیا۔اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن سید ظفر آغا نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بھر میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مختلف اسٹیشن میں مساجد قائم ہیں لیکن ان مساجد میں نہ کوئی موذن، امام اور نہ ہی خطیب تعینات ہیں۔ چونکہ باجماعت نماز کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے صحیح طریقے سے باجماعت نماز کیلئے دینی علماء کرم کی سر پرستی میں ادا کر نا شرعی عمل ہے۔ پولیس افسران و عملہ کے لئے دینی تقاضے کے مطابق با جماعت نماز ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک عالم دین خطیب، امام اور موذن ان مساجد میں تعینات کئے جائے لہذا مذکورہ بالا حقائق کو مد نظر رکھ کر یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ صوبہ بھر میں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں قائم مساجد میں خطیب امام اور موذن تعینات کرنے کی بابت عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے۔ایوان نے قرار داد کو منظور کرلیا۔ اجلاس میں حق دوتحریک کے مولانا ہدایت الرحمن نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں معذور، یتیم اور ہوائیں یہ معاشرے کی ایسے کمزور طبقات ہیں جو اس وقت بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور ان کی سر پرستی کرنے والا کوئی نہیں ہے مہنگائی کے اس دور میں صحت مند لوگ گزارہ کر نے سے قاصر ہیں ان کی کیا حالت ہوگی۔ محکمہ زکواۃ، محکمہ بیت المال، محکمہ سوشل ویلفیئر وغیرہ اداروں کی موجودگی کے باوجود وسائل کی تقسیم حقیقی ضرورت مندوں کو نہیں ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی معذور، قتیموں اور بیوواؤں کی بڑی تعداد آج بھی محروم ہیں۔لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبہ میں معذور، یتیم اور بیو داؤں کی فلاح و بہبود کی بابت خصوصی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے تا کہ ان کے لئے مختص فنڈز کی تقسیم حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچ سکے۔انہوں نے قرارداد کی موضونیت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ یتیموں کی کفالت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے معذوروں کے پانچ فیصد کوٹے پر بھی عملدآمد نہیں ہورہا۔صوبائی وزیر میرظہوربلیدی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عوام نے خدمت کا مینڈیٹ دیا ہے اس وقت بلوچستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 4لاکھ خواتین مستفید ہورہی ہیں وزیراعلیٰ نے صوبے کا کوٹہ آبادی، غربت، این ایف سی ایوارڈ کی شرح کے تناسب سے بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے جسے منظور کرلیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کمک پروگرام کے تحت مختص 2ارب روپے کی رقم سے بھی غریبوں کی بلا تشہیر مدد کی جائیگی،زکوۃ فنڈ میں 3ارب موجود ہیں جن سے انہیں کی کفالت ہوگی جبکہ متعلقہ قانون میں بھی ترمیم کر کے غریبوں کی کفالت کی جائیگی۔ایوان نے قرار داد کو منظور کرلیا۔ اجلاس میں محکمہ لائیوسٹاک سے متعلق سوالات میں جواب پر رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ انکے حلقے اور آبائی گاؤں سے متعلق فراہم کی گئی تفصیلات درست نہیں ہیں اس پر کاروائی کی جائے۔نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اسمبلی کو غلط معلومات فراہم کر نا استحقاق مجروح کرنا ہے جو آفیسر غلط معلومات فراہم کرتا ہے اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے جس پر اسپیکر نے کہا کہ غلط رپورٹ دینے والے افسران کے خلاف کاروائی ہوگی۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی کی عدم موجودگی پر انکی قرار داد اور سوالات ڈیفر کردئیے گئے۔بعدازاں بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے