بی ایم سی تصادم میں صورتحال کشیدہ ہونے سے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی،ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد بلوچ
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر)ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد بلوچ نے کہا کہ گزشتہ روز بولان میڈیکل کالج میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے درمیان جھگڑے کے نتیجے میں 10 طلباءزخمی ہوگئے پولیس نے 128 طلباءکو گرفتار کرکے تصادم کے بعد ہاسٹلز خالی کراکر کالج کو 2 ہفتوں کے لئے بند کردیا ایس ایس پی کے مطابق کوئٹہ بروری روڈ پر واقع بولان میڈیکل کالج میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے درمیان گزشتہ کئی ہفتوں سے جھگڑے چل رہے تھے۔ یہ جھگڑے کبھی ہاسٹل کے کمروں کی الاٹمنٹ، کبھی گھور کر دیکھنے اور دیگر معمولی باتوں پر ہو رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ بار بار کی شکایات کے باوجود کالج انتظامیہ نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور جھگڑوں کے ذمہ دار طلبا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جس کی وجہ سے گزشتہ روز دوبارہ جھگڑا ہوا تو اس میں لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے وار سے کئی طلبا زخمی ہوئے اور صورتحال کشیدہ ہو گئی جس کی وجہ سے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے جھگڑوں میں ملوث اور مقدمات میں نامزد طلبا کو گرفتار کیا تو کالج کی طلبا و طالبات نے مرکزی دروازے پر دھرنا دے دیا۔ پولیس نے انہیں ہٹانے کی کوشش کی تو ان پر حملہ کیا گیا جس پر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کر کے طلباءکو منتشر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ مشتعل طلبا نے پولیس پر پتھراﺅ بھی کیا جس کے بعد اضافی نفری طلب کر کے 128 طلباءکو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کر کے ڈسٹرکٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔بروری پولیس تھانے کے سب انسپکٹر شفیق احمد نے بتایا کہ کالج میں لڑائی جھگڑوں پر دو مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ منگل کو مقدمے میں نامزد طلباءاور ان کے ساتھیوں نے ان طلباءپر حملہ کر دیا جنہوں نے مقدمہ درج کرایا تھا جس کے بعد لڑائی نے پورے کالج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور قوم پرست طلباءتنظیموں کے حامیوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے۔پولیس کے مطابق آپس میں لڑائی اور پھر پولیس کے ساتھ تصادم میں کم از کم 10 طلباءزخمی ہوئے۔صورتحال کے پیش نظر بولان میڈیکل کالج کی انتظامیہ نے کالج کے ہاسٹلز کو 2ہفتوں کے لیے بند کر دیا ہے اور کالج کے پرنسپل کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق اس دوران کالج میں تعلیمی سرگرمیاں بھی معطل رہیں گی۔ہاسٹلز بند ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباءو طالبات پریشان نظر آئے اور کئی طلباءرات دوستوں، رشتہ داروں یا پھر ہوٹل میں گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ایک طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئے روز کے جھگڑوں سے ہم تنگ آچکے ہیں۔ ہم نہ آرام سے ہاسٹل میں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی کلاس رومز میں جا سکتے ہیں، ہماری پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ مستقبل کے ڈاکٹرز صرف زبان اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔دوسری جانب بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنے بیان میں پولیس کی جانب سے طلباءپر تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے معمولی مسئلے کو جواز بنا کر کالج پر دھاوا بول کر تمام ہاسٹلز پر قبضہ جما لیا اور طلباءکو زبردستی کمروں سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت تعلیمی اداروں میں فورسز کی موجودگی کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہیں۔