نیشنل پارٹی کے ساتھ پی بی 44 کے ضمنی انتخاب پر اتحاد نہ کرنا ہی بہتر ہے،ساجد ترین ایڈووکیٹ
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی قائمقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ سے گزشتہ روز نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر مالک بلوچ کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی ملاقات میں نیشنل پارٹی کی قیادت نے پی بی 44 کے ضمنی انتخابات میں اتحاد سے متعلق گفت و شنید کی جس پر پارٹی کے قائمقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے پارٹی قیادت سے مشورے کے بعد آگاہ کرنے کا کہا پارٹی نے 8 فروری کے انتخابات سے قبل بھی واضح کیا کہ بلوچستان کے مخدوش گھمبیر مسائل کے حل کیلئے اتحاد کا کہا کیونکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ، بلوچ نسل کشی، وسائل کی لوٹ مار، بے روزگاری، غربت، تعلیم و صحت سمیت کئی مسائل درپیش ہیں قومی و اجتماعی مفادات کی خاطر اتحاد انتہائی ضروری ہے نیشنل پارٹی نے ان امور پر اتفاق نہیں کیا 8 فروری کے دھاندلی زدہ الیکشن کے فوری بعد چار جماعتی اتحاد بنانے کے حوالے سے سردار اختر جان مینگل نے تجویز پیش کی کہ اتحاد نشستوں کی حصول کیلئے نہیں بلکہ بلوچستان کے مسائل کے حل اور مستقبل کے حوالے سے ہواس پر نیشنل پارٹی کے صدر نے کہا کہ میرے پاس اختیار نہیں اس متعلق سینٹرل کمیٹی و قیادت سے بات کروں گا بعد ازاں پتہ چلا وہ اس جدوجہد میں ہمارے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے راضی نہیں ہیں بیان میں کہا گیا کہ اپوزیشن کے چار جماعتی اتحاد کو بتائے بغیر فارم 47 کے حکمرانوں کو وزیراعظم، اسپیکر، بلوچستان میں سرفراز بگٹی اور پھر صدارتی انتخاب کیلئے انہوں نے اپوزیشن کی بجائے حکمرانوں کی حمایت اور انہیں ووٹ بھی دیا عوام کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ وہ ان تمام باتوں کو بھول جائیں انہوں نے موجودہ حکمرانوں جو فارم47کے ذریعے آئے انہیں قبول کیا اور مفادات حاصل کئے اب کہا جا رہا ہے کہ ہم ایک دو نشستوں کیلئے اتحاد کریں جو کسی صورت درست نہیں کیونکہ یہ اتحاد ذاتی مفادات کیلئے ہے اجتماعی مفادات کیلئے نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ صدارتی انتخابات کے دوران چار جماعتی اتحاد کے ہوتے ہوئے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دینے کے بجائے حکمران اتحاد کے آصف علی زرداری کو ووٹ دیا اس کے عیوض سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اسٹیڈنگ کمیٹیوں کے حصول کو یقینی بنایااس کے ساتھ ساتھ حالیہ آئینی ترمیم میں بھی اپوزیشن کی بجائے حکومتی اتحاد کا حصے بنے ترمیم میں عدلیہ کو دانستہ طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی بی این پی کے دو سینیٹرز کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اغواء کیا گیا ان کے ووٹ آئینی ترمیم کے حق میں دلوائے گئے پارٹی نے ان دو سینٹرز کو نکال باہر کیا بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دے کر یہ ثابت کیا کہ بی این پی کے سامنے زبان کی اہمیت و حیثیت ہے بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل کو قومی اسمبلی میں بلوچستان کے انتہائی مخدوش حالات،بلوچ لاپتہ افراد، انسانی حقوق کی پامالی، گمشدگیوں میں اضافہ، بلوچستان کے جملہ مسائل، بلوچ اور بلوچستان کے اجتماعی قومی مفادات کی خاطر آواز بلند کرنے نہیں دیا گیا تو انہوں نے احتجاجا استعفیٰ دیا ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر انہوں نے بلوچستان کی ماؤں، بہنوں کے دکھوں اور زخموں پر مرہم نہ رکھنے پر پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کو بہتر سمجھا اور حقیقی بلوچ قومی قیادت ہونے کا ثبوت دیا بیان میں کہا گیا کہ ایسے لوگوں کی ہمارے سامنے کوئی واقعت نہیں جو اپنی ماؤں، بہنوں کی آنسوؤں کا مداوا نہ کر سکیں نیشنل پارٹی نے ہمیشہ ذاتی مفادات، موقع پرستی کو ترجیح دی پارٹی سمجھتی ہے کہ دو نشستوں کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کوئی معنی نہیں رکھتی اور پی بی 44کے ضمنی ضمنی انتخاب پر اتحاد نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭