عدالتی امور سے متعلق بارز کو اعتماد میں لیکر آئینی ترمیم کی جائے،وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنماوں نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کے عوام کے درمیان سماجی معاہدہ ہے اس کا اختیار عوام کو ملنا چاہیے کہ ان کے سماجی معاہدے میں کیا تبدیلی کی جا رہی ہے، وکلا نے ہمیشہ ڈکٹیٹرز و مارشل لا کے خلاف آواز بلند کی جہاں سیاسی جماعتیں خاموش رہی، قاضی فائز عیسی کا نوٹیفیکیشن 88 دن پہلے جاری ہوا تھا جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹیفکیشن کیوں جاری نہیں کیا جا رہا۔ آئینی ترمیم میں اکثریت شقیں عدلیہ سے متعلق ہے لہذا عدالتی امور سے متعلق بارز کو اعتماد میں لیکر آئینی ترمیم کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنماں علی احمد کرد، راحب احمد بلیدی اور محمد افضل حریفال نے دیگر کے ہمراہ ہائی کورٹ بار روم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکلا کو چاہیے کہ وہ مظلوم لوگوں کیلئے آواز اٹھائے، مارشل لا یا ڈکٹیٹر اور ایوب خان سے لیکر مشرف تک کے خلاف وکلا ہی تھے جنہوں نے آواز اٹھائی لیکن یہ کام سیاسی جماعتوں کا تھا جو انہوں نے نہیں کیا۔ آج جس طریقے سے عدالتوں پر شب خون مارا جا رہا ہے اور اپنی مرضی کی عدالتیں بنائی جا رہی ہے اور ڈھٹائی سے آئینی حیثیت و رتبہ نہ رکھنے والے آج بضد ہیں کہ اس ملک کے آئین میں ترمیم کریں جو خود فارم 47 کی پیداوار ہیں۔ موجودہ آئین عوام کو بنیادی حقوق نہیں دے سکے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔ آج پورے پاکستان میں وکلا اپنا احتجاج پریس کانفرنسز کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ اس ترمیم کی کوئی آئینی اہمیت نہیں ہوگی، ترمیم کی صورت میں ایسی بربادی آئے گی کہ سب کو بہا کر لے جائے گی۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس آئین کو ٹیبل کیا تو ان کی جمہوری حیثیت میرے سامنے ختم ہو جائے گی، مولانا فضل الرحمان کا آئینی ترمیم کے حوالے سے جو کردار تھا وہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے حسی کے ساتھ سینیٹرز کو بلیک میل کرکے آئینی ترمیم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں سب سے طاقتور پریشر گروپ وکلا ہے سول سوسائٹی، طلبا و طالبات سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگ ہمارے ساتھ ہے، ہم ایک بار پھر واضح کرتے ہیں کہ اس آئینی ترمیم کو واپس لیا جائے کسی سینیٹر کو اٹھانے کی کسی میں ہمت نہیں اس کارنامے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے وفاقی وزیر قانون خود قبول کررہے تھے کہ ان کے پاس مسودہ نہیں ہے جس کا مطلب کہ مسودہ اسٹیبلشمنٹ نے ابھی تک دیا نہیں، وکلا سڑکوں پر نکل گئے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا جس کی تمام تر ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت وقت پر عائد ہوگی۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکا جائے۔ مولانا فضل الرحمان سے گزارش ہے کہ 6 دن تک مزید اس ترمیم کو روکا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے