63 اے کے فیصلے کے بعد حکومت کو نمبرز کی فکر نہیں، میرا یا مولانا کا انتظار کیوں کرے،بلاول بھٹو

اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہماری طرف سے آئینی ترمیم کےلیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں البتہ حکومت کےلیے ڈیڈ لائن ہو سکتی ہے، حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے بیٹ رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے لیے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں، امید ہے 25اکتوبر تک آئینی ترمیم پاس کرا لی جائے گی۔ ہماری طرف سے آئینی ترمیم کےلیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں البتہ حکومت کےلیے ڈیڈ لائن ہو سکتی ہے، کوشش تھی مولاناسمیت تمام سیاسی جماعتوں کوساتھ لےکرچلیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں حکومت کو کس بہانے سے کہوں کہ آپ انتظار کریں، حکومت کہے گی مولانا ساتھ ہو یا نہ ہو 63 اے کے بعد ہم نمبر پورے کرسکتے ہیں، 63 اے کے فیصلے کے بعد حکومت کو نمبرز کی فکر نہیں، حکومت کہے گی ہم ایس سی او سے پہلے ہی یہ کام نمٹا لیتے ہیں، حکومت کے پاس جب نمبر پورے ہیں تو میرا یا کسی اور کا انتظار کیوں کرے۔انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے، اس کے باوجود اتفاق رائے کی کوشش کی جا رہی ہے، پیپلزپارٹی تمام سیاسی جماعتوں کوساتھ لےکرچلنا چاہتی ہے۔

جے یو آئی کے ڈرافٹ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے، بات کے بعد جو سامنے آئے گا وہ ترمیم لائیں گے، ایوان صدر میں 5 بڑے بیٹھے تھے تو سنجیدہ بات ہوئی ہوگی۔بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ ہم چاہتے ہیں مولانا سے مشاورت ہو لیکن حکومت اب انتظار کیوں کرے؟ جب نمبر پورے ہوں تو حکومت میرا یا کسی اور کا انتظام کیوں کرے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جوعدالتوں کا چھٹی کے دن آڈر آیا اس کا چیف جسٹس کو بھی علم نہیں تھا، ہم عدالتی اصلاحات چاہتے ہیں،صوبوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں، آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات پر مولانا مان گئے تھے،لیکن حکومت آئین کے آرٹیکل 8اور 51 پر ترمیم لانا چاہتی تھی، جس سے پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نےاس سے انکار کر دیا۔

بلاول بھٹو کا نے دوران گفتگو کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت اس معاملے پرغیر سنجیدگی دیکھائی، عمران خان اگر اپریل 2022سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیر اعظم ہوتے، بانی پی ٹی آئی آج بھی سیاستدانوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے مجھے انکا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے