ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس،پولیس افسران سمیت 24 افراد کے نام سٹاپ لسٹ میں شامل

کراچی(ڈیلی گرین گوادر)پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہنواز پہنور کے قتل کیس میں پولیس افسران اور اہلکاروں سمیت 24 افراد کو بیرون ملک فرار ہونے سے روکنے کے لیے ایف آئی اے امیگریشن نے ان کے نام سٹاپ لسٹ میں ڈال دیے ہیں۔

محکمہ داخلہ سندھ نے 28 ستمبر کو ایف آئی اے امیگریشن کو ایک مراسلہ بھیجا تھا، جس میں ان افراد کی فہرست فراہم کی گئی تھی۔ اس فہرست میں ایک انسپیکٹر، چار سب انسپیکٹرز، ایک ہیڈ کانسٹیبل اور 13 کانسٹیبلز شامل ہیں۔اس سے قبل 26 ستمبر سندھ کے وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار نے آئی جی سندھ اور صوبائی وزیر سید سردار شاہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی تھی اور میرپور خاص میں ڈاکٹر شاہنواز کی موت کے واقعے کو جعلی پولیس مقابلہ قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پولیس مقابلہ سراسر غلط تھا۔انہوں نے تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عمر کوٹ واقعے کی رپورٹ 31 صفحات پر مشتمل ہے۔ جو پولیس افسران اس معاملے میں ملوث ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔ضیاالحسن لنجار کا مزید کہنا تھا کہ عمرکوٹ کے واقعے کی انکوائری کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں سے بھی مدد لی گئی۔ متاثرین جسے ذمہ دار قرار دیں گے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کریں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر مقتول ڈاکٹر شاہ نواز کے اہل خانہ نے ایف آئی آر نہ کٹوائی تو سندھ حکومت کٹوائے گی۔‘انہوں نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر شاہنواز کا موبائل فون فورنزک کے لیے لیبارٹری بھیج دیا ہے، وہ رپورٹ بھی آ جائے گی جس سے معلوم ہوگا کے وہ قصوروار تھے یا نہیں۔ضیاالحسن لنجار کا کہنا تھا کہ عوام کے جان ومال کا تحفظ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، میرپور خاص میں نیا ڈی آئی جی تعینات کر دیا ہے، ایس ایس پی میرپور خاص معطل ہیں، ان کے خلاف مقدمے کا حکم دے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع میرپور خاص میں ڈاکٹر شاہنواز کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کے الزام میں پولیس اہلکاروں سمیت 45 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ڈاکٹر شاہنواز کے کزن، ایڈووکیٹ ابراہیم کنبہار نے یہ مقدمہ سندھڑی تھانے میں درج کروایا، جس میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی میرپور خاص کیپٹن اسد چوہدری، ایس ایس پی عمرکوٹ، ایس ایچ او سندھڑی نیاز کھوسو، سی آئی اے انچارج اور مقامی مذہبی رہنما شامل ہیں۔

مقدمے میں قتل، انسداد دہشت گردی اور ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق ڈاکٹر شاہنواز تحصیل ہسپتال عمرکوٹ میں 18ویں گریڈ میں کام کر رہے تھے اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے، جس کا علاج جاری تھا۔17ستمبر کو مشتعل ہجوم کے پر تشدد احتجاج کے بعد ڈاکٹر شاہنواز پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا، جس کے بعد وہ عمر کوٹ سے چلے گئے تھے۔ اسی روز انہوں نے اپنی اصلی فیس بک آئی ڈی سے تردیدی بیان بھی جاری کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے