سربراہ بی این پی سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہونے کا اعلان
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا اعلان کردیا، انہوں نے پورے پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔سردار اختر مینگل نے محمود خان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس سیاست سے بہتر ہے پکوڑے کی دکان کھول دوں، ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے۔ جب بھی بلوچستان کے مسئلے کی بات کرو تو بلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے۔
میرے والد سردار عطاء اللہ مینگل کی تیسری برسی کے موقع پر، میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بطور رکن پارلیمنٹ استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں، اختر مینگل، رکن قومی اسمبلی، بطور رکن پارلیمنٹ اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کو بھی نہیں بولنے دیا جاتا، میں ریاست، صدر اور وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں۔ 23 جولائی 2023 کو پی ایم ہاؤس میں ایک میٹنگ تھی، وہاں بیٹھ کر کہا کہ اگر میری سیاست کی آپ کو ضرورت نہیں تو ہم کنارہ کر لیں گے۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج تک کوئی اردو بولنے والا، پشتو بولنے والا، بلوچی یا کوئی بھی مارا گیا ہے ان کی قاتل عدالتیں ہیں جو انصاف فراہم نہیں کرتیں، سب سے بڑے قاتل وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار کے لیے استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے استعفے سے 65ہزار ووٹرز ناراض ہوں گے لیکن ان سے معافی مانگتا ہوں۔ پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے۔
سردار اختر مینگل نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 75 سالوں سے آپ کو سمجھا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہی، بلوچستان کے حالات کی نشاندہی کئی سال پہلے کرچکا ہوں لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہے، اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ بجائیں، آئین کے بنانے والے نا خود کو بچا سکے اور نا آئین کو بچا سکے، 4 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چیئرمین بنا دیا جاتا ہے، آج ہم یہاں کھڑے ہیں لیکن ہماری آواز ہی نہیں سنی جا رہی۔ اسمبلی میں بولنے کا حق ہی نہیں دیا جاتا، پھر ہمارا اس اسمبلی میں رہنے کا فائدہ کیا ہے، اسی لیے آج اس ایوان سے استعفے کا اعلان کرتا ہوں۔