بلوچستان میں اس وقت کسی ملٹری آپریشن کی ضرورت نہیں،میرسرفراز بگٹی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت کسی ملٹری آپریشن کی ضرورت نہیں اگر ضرورت ہوئی تو فوج ہم نے اسی کام کے لئے بنائی ہے ہم آئی بی او کر کے صوبے میں حکومتی رٹ قائم کریں گے،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کر کے دیکھ لئے ہیں کیا ان کے آنے سے مارا ماری ختم ہوگی؟ 26اگست کو ڈیرہ بگٹی میں ایک پٹاخہ بھی نہیں پھٹا دہشتگردی میں ملوث گروہ الگ الگ ہیں لیکن انکی نانی ایک ہی ہے یہ را کی مسلط کردہ اینٹی لیجنس جنگ ہے اگر کسی کو اس بات پر شک ہے تو میں ثبوت فراہم کرنے کو تیار ہوں،دہشتگرد کو دہشتگرد کہنا چاہیے اور اس کے ساتھ دہشتگردوں جیسا سلوک کرنا چاہیے ہم نوجوانوں سے بات کریں گے انہیں میرٹ پر روزگار دیں گے،عام بلوچ فیصلہ کر ے کہ بلوچ کی بچی کو حکومت اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیج رہی ہے اور بشیر زیب انہیں خود کش حملہ آور بنا رہا ہے دونوں میں سے کون اچھا کام کر رہا ہے؟،وزیراعلیٰ ہاؤس میں 846ملازمین بھرتی کئے گئے یہ سب کچھ ہم نے ہی کیا ہے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بات انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں دہشتگردی کے واقعات کے خلاف پیش کی گئی مذمتی قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی نمائندہ اسمبلی کے تمام ارکان نے 26اگست کو لسبیلہ، موسیٰ خیل سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات کو لیکر دو قسم کے بیانیے سامنے آتے ہیں ایک کہ یہ معاملہ سیاسی ہے اور دوسرا کہ یہ دہشتگردی ہے۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ لڑ رہے ہیں اور یہ واقعات کر رہے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ وہ محروم ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو کیک کی طرح کاٹ کر آزاد بلوچستان بنایا جائے 1971میں بھی پاکستان کو سازش کے تحت دو لخت کیا گیا دشمن آج بھی اسی طرز پر پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے اور اس بار اس نے تشدد کا راستہ چنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ بلوچستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے اور مذاکرات کرکے صوبے میں امن ہو جائے لیکن کسی کو اچھا لگے یا برا اس مسئلے کا فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہونا ہے کون ہم سے مذاکرات کر رہا ہے؟ سیاسی معاملہ وہ ہے جو الیکشن کے متعلق لوگوں کے خدشات ہیں یا پھر کسی بھی آئینی فریم ورک میں رہتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے یہاں بلوچ بیلٹ سے پشتون رکن قومی اسمبلی بھی بنے ہیں ایسے معاملات سیاسی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تشدد کاراستہ اختیار کیا ہے بلوچ نوجوان آج ریاست سے دور ہے ہمارے لئے یہ چیلنج ہے حکومت کی ابتر حکمرانی کی جونب سے نوجوان ریاست سے متنفر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بظاہر کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ پرامن ہیں کیا پر امن لوگ پاکستان کے جھنڈے اتار کر انہیں جلاتے اور وہاں نام نہادآزاد بلوچستان کے جھنڈے لگاتے ہیں، کیا پر امن لوگ نام نہاد آزاد بلوچستان کاترانہ اپنی تقریبات میں لگاتے اور بلوچ سوگند لیتے ہیں کہ آزادی تک جدوجہد جاری رکھیں گے؟ اگر آئین نے پر امن احتجاج کا حق شہریوں کو دیا ہے تو حکومت کے پاس اختیار ہے کہ اس کے انتظامات اور مقام کا تعین کرے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی اس طرح سوشل میڈیا کااستعمال نہیں کیا جارہا جیسا ہمارے یہاں ہوتا ہے دہشتگردوں کی ٹک ٹاک ویڈیوز چلتی ہیں ملک کے خلاف باقاعدہ طور پر تین سمت سے سازش ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی کی نیت پر شک نہیں لیکن طریقہ کار پر اعتراض ہے ترقی اور محرومی کو لڑائی کی وجہ قرار دینا درست نہیں پورے پاکستان میں غیر متوازن ترقی ہوئی ہے وزیراعلیٰ ہاؤس میں 846ملازمین بھرتی کئے گئے یہ سب کچھ ہم نے ہی کیا ہے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ہم کب تک ٹرانسفر پوسٹنگ کے جھگڑے میں رہیں گے ہم ہی ابتر حکمرانی کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کی چیکنگ اور آپریشن پر تنقید اور چیک پوسٹوں کو منظم طور پر پروپگینڈا کے تحت ختم کیا گیاتاکہ فورسز کو بدنام کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جن سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ پہلے آپ یہ تسلیم کر لیں کہ بلوچستان کو آزاد ریاست بنایا جارہا ہے تب ہم مذاکرات کریں گے کہ انخلاء اور علیحدیگی کیسے کرنی ہے حکومت ایسے کسی مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو پاکستان میں حقوق ملے ہیں آج ملک کا صدر بلوچ ہے 18ویں ترمیم میں ہمیں وہ حقوق بھی ملے جن کا قوم پرستوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا ہمیں یہ حقوق تشدد نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور آئین کے ذریعے ملے ہیں اگرچہ وسائل کم ہیں اور 200ارب میں بلوچستان کی ترقی ممکن نہیں ہے لیکن یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور ہم نے اپنے وسائل بڑھانے کے لئے اقدامات بھی نہیں کئے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ دہشتگرد کو دہشتگرد کہنا چاہیے اور اس کے ساتھ دہشتگردوں جیسا سلوک کرنا چاہیے ہم نوجوانوں سے بات کریں گے انہیں میرٹ پر روزگار دیں گے صوبے میں نوکریاں بیچنے کا سلسلہ بند کردیا گیا ہے الف انار اور ب سے بکری پڑھانے والے استاد کے انٹر ویو کی کیا ضرورت ہے جس کے مارکس زیادہ ہیں وہ اپنی یونین کونسل میں بھرتی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قردادوں میں سے بی ایل اے کا لفظ نکالنے کی نوبت کیوں آئی؟ فیصلہ کریں کہ کیا آزاد بلوچستان کی طرف جانا ہے یا ہم پاکستان کی بات کر رہے ہیں عام بلوچ فیصلہ کر ے کہ بلوچ کی بچی کو حکومت اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیج رہی ہے اور بشیر زیب انہیں خود کش حملہ آور بنا رہا ہے دونوں میں سے کون اچھا کام کر رہا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ ہم کس سے مذاکرات کریں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کر کے دیکھ لئے ہیں کیا ان کے آنے سے مارا ماری ختم ہوگی؟ 26اگست کو ڈیرہ بگٹی میں ایک پٹاخہ بھی نہیں پھٹا دہشتگردی میں ملوث گروہ الگ الگ ہیں لیکن انکی نانی ایک ہی ہے یہ را کی مسلط کردہ اینٹی لیجنس جنگ ہے اگر کسی کو اس بات پر شک ہے تو میں ثبوت فراہم کرنے کو تیار ہوں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کی کسی بھی ریاست میں علیحدیگی پسندوں کو سڑکوں پر آکر کاروائیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے گوادر میں احتجاج پر کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی بلوچ خاتون کو گرفتار نہیں کریں گے بعد میں انہی خواتین کو ڈھال بنایا گیا جبکہ بشیر بلوچ کو پتھر مار مار کر شہید کیا گیا وہ یقینا مظاہرین سے بلوچی میں ہی با ت کر رہا ہوگا اس کی مذمت کون کریگا۔ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس، ان کیمرہ اجلاس بلائے جاسکتے ہیں حکومت نوجوانوں سے بات اور دہشتگردوں کے ساتھ ان کے مطابق سلوک کریگی حکومت کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ 26اگست کو قومیت کی بنیاد پر ہمیں لڑوانے کی کوشش کی گئی دہشتگرد صرف دہشتگرد ہیں انکا کوئی قوم،قبیلہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں کنفیوژن ہے کہ دہشتگرد کو دہشتگرد کہنے کو لوگ تیار نہیں ہیں اس لئے ملک میں بھی یہ کنفیوژن پائی جاتی ہے جو مذاکرات کرنا چاہتا ہے اس سے مذاکرات کریں گے اور تشدد کرنے والوں کے خلاف جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت کسی ملٹری آپریشن کی ضرورت نہیں اگر ضرورت ہوئی تو فوج ہم نے اسی کام کے لئے بنائی ہے ہم آئی بی او کر کے صوبے میں حکومتی رٹ قائم کریں گے سیکورٹی فورسز کی جانب سے 9واقعات روک لئے جاتے ہیں ایک واقعہ ہونے پر تنقید کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی ایک لعنت ہے معصوم لوگوں کا قتل نہ روایات ہے نہ اخلاق ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی رہے گی اور انہیں انصاف فراہم کریگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭