بلوچستان اسمبلی اجلاس،25اور 26اگست کو رونما ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کیخلاف مذمتی قرار داد منظور

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں 25اور 26اگست کو رونما ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے خلاف مذمتی قرار داد منظور، ارکان اسمبلی کا بلوچستان کے مسائل کو حل کر نے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت پر زور جبکہ دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ۔ بلوچستا ن اسمبلی کا اجلاس منگل کو اسپیکر عبدالخالق اچکزئی کی صدارت میں 30 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات کے خلاف پیش کی گئی قرار داد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے صوبے میں عالمی سازش کے تحت حالات خراب کئے جارہے ہیں جب بھی ترقیاتی منصوبے شروع کئے جاتے ہیں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کیونکہ دہشتگردوں کو معلوم ہے کہ انہیں ترقی سے نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کا سب کو مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا 26اگست کو خانہ جنگی پھیلانے کی کوشش کی گئی تمام اقوام، قبائل کے مراسم ہیں ہمیں دہشتگردی میں فرق کرنا ہوگا دہشتگرد ہمارے گھروں تک آچکے ہیں اب بھی ہم فیصلہ نہیں کر سکتے تو بلوچستان کون ٹھیک کر یگا جولوگ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ان سے مذاکرات کئے جائیں دہشتگردوں کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس، جرگہ یا کسی بھی شکل میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو بیٹھا یاجا ئے اور ان سے بات کی جائے۔صوبائی وزیر بخت محمد کاکڑ نے کہا کہ 25اور26 اگست کی درمیانی شب دہشتگردوں نے معصوم مسافروں کو انکے بچوں کو قتل کیاگیابزدلانہ کاروائی کی پورا پاکستان مذمت کررہاہے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک میں دہشت گردی کی گئی برداراقوام کو دست وگربیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہمارے لاکھوں لوگ پنجاب سندھ اور دوسرے صوبے میں بزنس کرتے ہیں دہشتگرد ان پر روزگار کے دروازے بند کراناچاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ایک رکن اسمبلی نے فورسز پر تنقید کی اگر سیاست دان سیکورٹی فورس پر اعتماد نہیں کریں گے مسائل کیسے حل ہوں گے جو اس دھرتی کی خاطر 8گھنٹے کھڑے رہتاہے کیا اس کے بچے نہیں ہیں۔پارلیمانی سیکرٹری میر اصغر رند نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو منافقت کی سیاست ختم کرنی ہوگی دہشت گرد بلوچ کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے بلوچستان سے زیادہ بلوچ پنجاب میں ہیں دہشت گردی بلوچیت کانعرہ ترک کردیں کچھ گروپ اپنے آپ کوآگے کے لئے اسٹوڈنٹس کو ورغلاتے ہیں اپنے اپنے علاقے کی ترقی کیلئے سیاست کرنی چاہیے دہشت گردی میں بلوچوں کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ صوبائی وزیر حاجی علی مدد جتک نے کہا کہ 25 اگست کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات قابل مذمت ہیں، سب نے مل بیٹھ کر ایسالائحہ عمل طے کرناچاہیے جس سے مسئلہ حل ہوہمارے رسم ورواج کہاں گئے، بیوی بچوں کے سامنے انکے والد کو مارا گیا یہ کہاں کی انسانیت ہے ماہل بلوچ کا خاندان شریف اور سیاسی ہے ماہل بلوچ کو دہشت گردوں نے ورغلاکر دہشت گرد بنایا بچیوں کو دہشت گردی کاایندھن بنایاجارہاہے بیرون ملک بیٹھ کر بلوچیت کادعوی کرنااورغریبوں کو مارنا، کہاں گئی ہماری مہمان نوازی،ہمارے اساتذہ، ڈاکٹر، پولیس،سیکورٹی فورسز اور ڈرائیور کو مارناکہاں کی ترقی ہے کونسی خیرخواہی ہے،انہوں نے کہا کہ ہمارے بچوں کی تعلیم تباہ ہورہی ہے دہشت گرداپنے آقاوں کو خوش کرنے کیلئے بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتے جو بھی آئین پاکستان اور قانون کو مانتاہے اس سے بات کرنے کو تیارہیں شناختی کارڈ چیک کرکے معصوموں کو قتل کرنیوالے دہشت گرد ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری مینہ مجید نے کہا کہ 26اگست کو ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات قابل مذمت ہیں بلوچستان میں دہشت گردی کے جوحالات ان کے ہم کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں، سب کا موقف واضح ہوناچاہیے بچوں کے سامنے انکے والد کو شہید کرنے کاعمل کتنادرد ناک منظر ہوگابلوچ غیرت مند قوم ہے بزدل نہیں کونسے حقوق ہیں جو معصوموں کو قتل کرنے کے سے حاصل ہوں گے یہ حقوق کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے، بلوچستان کو دہشت گردی محرومیوں میں اضافہ کرے گی ملک کی امن وسلامتی برقراررکھنے والوں کو سلام پیش کرتی ہوں۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی نے کہا کہ پاکستان ہم سب کا ہے، مذاکرات ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے جب تک مذاکرات نہیں ہوں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے ہم سی ایم کو اختیاردیتے ہیں وہ جاکر ناراض لوگوں سے مذاکرات کریں وزیراعلی تمام نوابوں سرداروں کو بلواکر ان سے بات کریں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل نہیں کرسکتاوفاق وزیراعلی بلوچستان کو مذاکرات کااختیاردے۔نیشنل پارٹی کے رکن خیر جان بلوچ نے کہا کہ ہرقسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں بلوچستان روایات کی امین سرزمین ہے تشدد انسانیت کے خلاف گھناوناجرم ہے بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو سنجیدگی سے دیکھا جائے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرروت ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی ملکی سطح کی سیاست کرتی ہے کسی بھی قوم سے تعلق رکھنے والے کی جان لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہمیں یکجا ہو کے اس ملک کے لیے اپنی زمہ داریاں ادا کرنی چاہیے اس ملک کی سلامتی کے لئے ہمیں یکجا ہو کر سوچنا پڑے گا بلوچستان میں ناانصافیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے بلوچستان کے لوگوں کوبنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ دہشت گردی میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اب مذمت کرنے سے بات نہیں چلے گی بلکہ عملی اقدام کرنے ہوں گیہم یہاں عوام کی نمائندگی کرنے آئے ہیں فیک لوگ بلوچستان کا پرامن ماحول خراب کررہے ہیں ضمیر فروش لوگوں سے تاریخ بھری پڑی ہے دہشت گردوں کو ہرواردات کی پے منٹ ہوتی ہے یہ دہشتگرد پورے بلوچستان کے بدنماداغ بن گئے ہیں۔صوبائی وزیر راحیلہ حمید خان درانی نے کہا کہ جودہشت گردی کے واقعہ ہواہے قابل مذمت ہے اس واقعہ کیبعد ہر آنکھ اشکبار ہے بلوچستان انٹرنیشنل توجہ کامرکز بن چکاہے دہشت گردوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ خطرناک صورتحال ہے کہ ایک لڑکی نے خودکش حملہ کیاقبائلی معاشرے میں لڑکیاں گھروں میں ہوتی ہیِں ہماری جنگ ایک سوچ کیساتھ ہے ڈی سی شہید ہوا کیاوہ بلوچ نہیں تھا۔انہوں نے تجویز دی کہ بلوچستان میں آل پارٹیز کانفرنس بلوائی جائے تمام اسٹیک ہولڈر سے بات کرنی چاہیے مسئلے کاحل ہے صرف ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن میر زرین مگسی نے کہا کہ دہشت گردی کا ایشو تمام مسائل کی جڑ ہے بلوچیت کوہائی جیک کرکے صوبے کونقصان پہنچایاگیاہے اس مسئلے پرتمام کوسیاست سے ہٹ کریکجا ہواچاہیے یہ بلوچستان سب کاہے بلوچستان ہر پاکستانی کا ہے،ہمارے مسائل سنجیدہ ہیں ہم مہمان نواز اورمیزبان ہیں ہماری روایات تباہ کی جارہی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کی رکن شاہدہ رؤف نے کہا کہ صوبے کے لئے لانگ ٹرم پالیسی بنانی ہوگی، اپوزیشن حکومت کے ساتھ صوبے کی بہتری کے لئے ہے۔انہوں نے کہا کہ فورسز ختم کردیں تو کیا ہم محفوظ سفر کر سکتے ہیں؟ مسئلے الجھانے کے بجائے سلجھا ئے جائیں وفاقی وزیرداخلہ بلوچستان کے مسئلے پر غیر سنجیدہ بیان دیا ہم چاہتے ہیں کہ ملک چلے بی ایل اے جو کچھ کر رہی ہے حکومت کیا کر رہی ہے؟ سائنس کالج میں جو کچھ ہوا کیا وہ بی ایل اے نے کیا؟ اس وقت ہر ادارے میں ون مین شو ہے۔قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ وہ 25اور 26اگست کو پیش آنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہیں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے آنیوالی مذمتی قرارداد کی حمایت کرتاہوں ایوان جو بھی فیصلہ کریگا ہم اس کے ساتھ ہیں۔صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ 26اگست اور اس سے قبل کھڈ کوچہ میں پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات کو روکنے کی سیکورٹی فورسز مکمل کوشش کر رہی ہیں محنت مزدوری کے لئے آنے والے مزدوروں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے صوبے کے حالات خراب کر نے کے لئے ایسے واقعات کروائے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سیلاب متاثرین کے لئے جو اعلان کئے ہیں وہ پورے ہورہے ہیں این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا حصہ دوگنا کر نے میں وزیراعظم اور صدر مملکت کا کردار ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان جلد ہی دوبارہ امن کا گہوارہ بنے گا۔بعدازاں ایوان نے مشترکہ قرار داد کو منظور کرلیا جس کے بعد اسپیکر عبدالخالق اچکزئی نے اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے