کسی بلوچ نے پنجابی کو قتل نہیں کیا بلکہ دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے،وزیراعلیٰ بلوچستان

لاہور/کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کا جو مقدس خون گرا ہے اس کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا،معصوم شہریوں کوبسوں سے اتارکرشہید کیا گیا، کسی بلوچ نے پنجابی کو قتل نہیں کیا بلکہ دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے، بلوچستان حکومت شہدا ء کے لواحقین کو فی کس 20 لاکھ روپے دے گی، گاڑیوں کے نقصانات بھی حکومت بلوچستان پورا کرے گی،یہ ناراض بلوچ نہیں ان کو دہشتگرد کہا جائے، ان کا قوم پرستی سے کوئی تعلق نہیں، گڈ یابیڈ وائلنس کوبرداشت نہیں کیا جا سکتا، صوبے کوجتھوں کو حوالے نہیں کیا جا سکتا یہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں،کسی کو بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط نہیں کرنے دیا جائے گا،بلوچستان میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں نہ حقوق کی جنگ ہے، دہشتگرد قتل وغارت کر رہے ہیں، آئین کے اندر رہ کرکسی سے بھی مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن جو آئین کے فریم ورک سے باہر آزادی کی بات کر رہا ہے تو اس سے کیسے بات کی جا سکتی ہے،جو معصوم لوگوں کو شہید کریں کیا ان سے مذاکرات کروں یا انہیں کیفر کردار تک پہنچاؤں،ان سے بھیک مانگوں مذاکرات کرو،ان سے کسی قیمت پر مذاکرات نہیں ہو سکتے یہ عدالت میں پیش ہوں گے انہیں ضرور کیفر کردار تک پہنچیں گے، بلوچستان میں آرمی ہے اور نہ کوئی آپریشن ہو رہا ہے۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے کیپٹن محمد علی قریشی کی رہائشگاہ پر جا کر ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کی ہے، شہید کی قبر پر بھی گئے ہیں،شہید کیپٹن محمد علی قریشی نے جواں مردی کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کیا، ہمیں شہداء کی قربانیوں کی قدر ہے۔ انہوں نے کہا کہ معصوم شہری جن کا تعلق پنجاب سے تھا ان کو بسوں سے اتار کر جس بے دردی سے شہید کیا گیا میں پنجاب کے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں مارا بلکہ دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے، دہشتگردوں کی کوئی قوم،مذہب اور کوئی مسلک نہیں ہوتا بلکہ دہشتگرد کو دہشتگرد کہا جائے، بلوچ روایات میں مسافروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،خواتین اور بچوں کا احترام ہوتا ہے، معصوم شہریوں کو خواتین اور بچوں کے سامنے بسوں سے اتار کر شہید کرنا یہ بلوچ روایات نہیں، یہ اسلامی روایات ہیں اورنہ ہی معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت اورریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے جو معصوم شہری شہید ہوئے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے لواحقین کے ساتھ ہیں اوران سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں، ایسے واقعات کے لئے مذمت کا لفظ بہت چھوٹا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اسی لئے پنجاب میں حاضر ہوئے ہیں، ان دہشتگردوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور ان سے ایسے ہی نمٹا جائے گا جیسے دہشتگردوں سے سلوک کیا جاتا ہے۔بلوچستان میں جو حالیہ واقعات ہوئے ہیں دہشتگردوں نے 9مقامات پر حملہ کیا ہے اورسارے آسان ہدف تھے، ایک پیرا ملٹری کی پوسٹ پر حملہ کیا جہاں تین ایف سی کے جوان شہید ہوئے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ نقصان نہیں بلکہ سات خود کش دہشتگردوں کے باوجود انہیں یہاں بھرپو رمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، جہاں جہاں ہدف بنایا گیا اس میں معصوم شہریوں پر حملہ کیا گیا،معصوم لوگوں کو شہید کر دینا اور پھر ذمہ داری قبول کر لینا اس سے ثابت ہوتا ہے ان کی کیپسٹی نہیں ہے،انہیں بتانا چاہتے ہیں ظلم کا انجام بڑا بھیانک ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان اور ہماری سکیورٹی فورسز کی کیپسٹی بھی ہے اوراہلیت ہے جو مقدس خون گرا ہے جو مقدس خون بے دردی سے بہایا گیا ہے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا اورقانون کے مطابق سزائیں دلوائی جائیں گی۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم،وزیر داخلہ اورآرمی چیف بلوچستان تشریف لائے اور ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ وفاقی حکومت نے شہداء کے لواحقین کے لئے امداد کا اعلان کیا ہے،بلوچستان حکومت بھی فی کس 20لاکھ روپے دے گی،جوگاڑیوں کا نقصان ہوا ہے وہ بھی حکومت بلوچستان پورا کرے گی۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کو بسا اوقات میڈیا اور سول سوسائٹی سپیس دیتے ہیں اور انہیں ناراض بلوچ کا نام دیا جاتا ہے، بلوچستان اسمبلی میں رولنگ دی جا چکی ہے کہ انہیں ناراض بلوچ نہیں کہا جائے گا بلکہ انہیں دہشتگرد کہا جائے گا،ہم ان کو دہشتگرد سمجھتے ہیں، جو دہشتگرد ی کی لہر ہے اس کو کچلا جائے، ہم اپنی رٹ کو قائم کریں گے۔ بلوچستان کنفلکٹ زون ہے یہاں ایسے واقعات کا ہونا انہونی بات نہیں ہے لیکن جو رد عمل وہ بہت اہم ہے، دیکھنا ہوگا کہ حکومت یا ریاست کا رد عمل کیا ہے۔جو قوم پرستی کی بات کی جاتی ہے اس کا قوم پرستی سے کوئی تعلق نہیں،جیسے مذہب کے نام پر دہشتگردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ایسی قوم پرستی کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں، اس کی شدت سے مذمت کی جانی چاہیے، گڈ اور بیڈ وائلنس کوبرداشت نہیں کیا جا سکتا،صوبے کوجتھوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا، یہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، یہ بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کو مسلط نہیں کرنے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں پنجاب کے بھائیوں،پاکستانی بھائیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے آیا ہوں،بلوچستان حکومت، وہاں کے لوگوں کے دل شہداء کے ورثاء کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اس طرح کے واقعات دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے، ان شا اللہ اس مقدس خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردوں،سہولت کار وں اور ہمدردی رکھنے والوں کا مکس اپ ہے اور یہ واقعات کرتے ہیں،جو سہولت کار ہیں ہماری انٹیلی جنس کی استعداد ہے،فورسز کی استعداد ہے انہیں ضرور کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش موجود ہے، دہشتگرد گروپ ہیں، اس کے ساتھ سوشل میڈیا ہے، سوشل موبلائزیشن ہے،یہ کردار ہیں جو پاکستان کے خلاف حملہ آور ہیں، ” را”فنڈڈ لشکر ہیں اور حکومت کے پاس اس سب کے نا قابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں جو قوم پرستی کی بات کرتے ہیں ان کا قوم پرستی سے کوئی تعلق نہیں، یہ ملک دشمن ایجنسیز کے آلہ کار ہیں، انہیں تربیت دی جاتی ہے، فنڈز دئیے جاتے ہیں اور پھر انہیں آسان ہدف دئیے جاتے ہیں جس میں یہ معصوم لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، بہت سے عوامل اکٹھ کر کے پاکستان پر حملہ آور ہیں،دہشتگردوں میں استعداد نہیں کہ وہ ہارڈ ہدف کو نشانہ بنا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کی فارمیشن ہے، اختر مینگل اس کے ممبر نہیں ہے،جو ممبر ہیں ان کو اس اجلاس میں بلایا جاتا ہے۔انہوں نے مسنگ پرسنز کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کے خلاف ایک منظم قسم کی سازش ہو رہی ہے، اس حوالے سے آرگنائز مہم چلائی جارہی ہے اس میں سوشل میڈیا ہے،سوشل موبلائزیشن ہے،اگر آئین انہیں حق دیتا ہے کہ جلوس کریں وہیں آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ آرگنائز کرے۔ آپ ریاست کے خلاف دماغوں میں زہر اگلیں،آپ کو موبلائزیشن کر کے آواز چاہیے تاکہ لوگ آپ کی وکالت کریں کہ یہ مظلوم ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کا مستقبل ہے اس نے پاکستان میں کردار ادا کرنا ہے، اس کے دوسرے فیز کی تیاریاں ہو رہی ہیں،ایسے میں داسو میں کیا ہوا،بلوچستان میں کیا ہوا، یہ صرف اور صرف پاکستان کوعدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش ہے، معاشی طریقے سے،دہستگردی سے اور ایک خاص سیاست کے ذریعے جس میں ریاست سے نوجوان کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہم اس کوشش کو ناکام بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بتایا جائے بلوچستان میں کون سا سیاسی مسئلہ ہے اور کون سا حل چاہیے، بلوچستان میں سیاسی مسئلہ کیا ہے؟۔ ایک طرف دہشتگرد ہیں،”را ”فنڈد لشکر ہے جو معصوم لوگوں کو شہید کر رہے ہیں،ریاستی اداروں پر حملہ آور ہیں، قومی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور پھر کنفیوڑن پیدا کی جاتی ہے کہ سیاسی مسئلہ ہے، جنہوں نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے کیا یہ سیاسی مسئلہ ہے،الیکشن میں سیاسی مسئلہ ہو سکتا ہے کہ کسی کو نتائج پر اعتراض ہو لیکن اس کے لئے آئین میں فریم ورک دیا ہوا ہے پلیٹ فارم ہے، سیاستدان آپس میں الجھتے بھی ہیں اورسلجھتے بھی ہیں،پاکستان میں تو سیاسی مسائل نظر آتے ہیں بلوچستان میں کوئی سیاسی مسئلہ نظر نہیں آتا، یہ صرف دہشتگرد ہیں جو معصوم لوگوں کوقتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سے بھی آواز آتی ہے کہ مذاکرات کریں۔ میں آئین کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے تو مذاکرات کر سکتا ہوں لیکن اس سے باہر جو آزادی کی بات کر رہا ہے اس سے کیسے بات کی جا سکتی ہے، 23 معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر شہید کر دیا گیا ان سے مذاکرات کروں یا انہیں کیفرکردار تک پہنچاؤں، کیا ان سے بھیک مانگوں مذاکرات کرو،کسی قیمت پر مذاکرات نہیں ہوں گے، یہ عدالت میں پیش ہوں گے اورضرور کیفر کردار تک پہنچیں گے۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ میں واضح کر دوں بلوچستان میں کوئی آرمی نہیں ہے،بلوچستان میں کوئی ملٹری آپریشن نہیں ہے، کوئٹہ میں پیرا ملٹری فورس ہے، تھرڈ کیپسٹی میں استعمال ہوتا ہے،ریاست نے ادارے بنائے ہیں تاکہ وہ تھریٹ کے چیلنج کو قبول کریں، اتنا بڑا چیلنج نہیں کہ آرمی کو استعمال کیا جائے۔بلوچستان میں پیرا ملٹری ہے،ایف سی ہے، لیویز، سی ٹی ڈی اورپولیس ہے اور بڑی آسانی سے کام کیا جا سکتا ہے،اگر سوات طرز کے آپریشن کی ضرورت پڑی تو بالکل کیا جا سکتا ہے۔ فی الوقت ہم انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر رہے ہیں۔ لوگ سوسائٹی کے اندر سے ہیں اس لئے مشکلات اور چیلنجز ہیں ہم پہلے بھی ان سے نمٹے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حقوق کی جنگ کی بات کی جاتی ہے، بتایا جائے کون سے حقوق ہیں،جو ڈویلپمنٹ لاہور میں ہوتی ہے کیا وہ گوجرانوالہ میں ہے، جو کراچی میں ہے کیا وہ کشمور میں ہے، جو پشاور میں ہے کیا وہ مردان میں ہے،یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، یہاں بھی کنفیوڑن پیدا کی جارہی ہے،کوئی حقوق کی جنگ نہیں،یہ صرف اور صرف دہشتگردی ہے۔آئین پاکستان نے بلوچستان کو اس کے حقوق دئیے ہیں، این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب نے اپنے حصے کا شیئر دیا۔ بیڈ گورننس کے ایشوز ضرو ر ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ بلوچستان میں ترقی کا عمل نہیں ہو رہا۔انہوں نے کہا کہ جو اصل مسئلہ ہے جو پکچر پرنٹ کی جارہی ہے جو بیانیہ پہنچ رہا ہے وہ درست نہیں ہے۔بلوچستان میں جو خون بہا ہے وہ پنجابی کا خون نہیں پاکستانی کا خون بہا ہے،یہ بلوچوں،پشتونوں کو بھی ما رہے ہیں، ہم اس تقسیم کو انکرج نہیں کر سکتے، ہم سب پہلے پاکستانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست ناکام نہیں ہے،حکومت کی ناکامی اورکوتاہی ہو سکتی ہے لیکن ریاست کی ناکامی نہیں ہے۔گوریلا وار ہے، یہ کنفلکٹ والا خطہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کچے میں رحیم یار خان میں آپریشن ہوتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے رحیم یار خان میں کچے میں آپریشن ہو رہا، اسے پورے پنجاب میں آپریشن نہیں کہا جاتا، لیکن بلوچستان میں پورے بلوچستان میں آپریشن کہا جا جاتا ہے، وہاں کہیں آپریشن نہیں ہو رہا،جو قتل و غارت میں شامل ہوگا اس کے پیچھے ضرور جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کمزور کرنے کی منظم سازش ہے اور اس میں شامل لوگ تین جگہوں سے کامیاب ہیں جس میں دہشتگرد ہیں،سوشل میڈیا ہے جس میں نوجوان کو ریاست سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،سوشل موبلائزیشن ہے، یہ وکٹم کارڈ کھیلتے ہیں، میں پھر کہوں گا ان کو ناراض بلوچ نہ کہیں یہ دہشتگرد ہیں۔انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ ہیں جو بیرون ممالک پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں اور یہاں کے نوجوانوں کو پراپیگنڈا ٹول کے ذریعے جذباتی کر کے پہاڑوں کی طرف سے بھیجا جاتا ہے، ان کے اپنے بچے بھی پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں، انہیں انٹر پول کے ذریعے لانا چاہیے،ریڈ وارنٹس جاری ہونے چاہئیں کیونکہ یہ دہشتگردی کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بشیرزیب بی ایل اے کا ہیڈ ہے یہ ساری ایک آرگنائزڈ”را”فنڈڈ دہشتگردی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے