بلوچستان سمیت ملک بھر میں بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کی آج 18ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان سمیت ملک بھر میں مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی آج 18ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آگہی سیمینارز کا انعقاد کیا گیا ہے۔ تقریبات میں عوام کو نواب اکبر بگٹی کی مزاحمت سے متعلق آگہی فراہم کی جارہی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں آج بھی شورش موجود ہے۔
بلوچستان کی وفاق کے رویے سے ناراضی کوئی نئی بات نہیں، یہ معاملہ دہائیوں پرانا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی مئی 1972 میں بننے والی حکومت کو 9 ماہ کے عرصے میں چلتا کردیا تھا۔ ان 9 ماہ کے دوران بھی حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بلوچستان کے نوجوانوں میں وفاق کے رویے پر ایک ناراضی پیدا ہوئی جو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ شورش کی شکل اختیار کر گئی۔1974 میں ابھرتی شورش پر قابو پانے کے لیے بلوچستان میں آپریشن کیا گیا جس میں ہزاروں نوجوانوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور یوں بلوچستان میں شورش میں شدت پیدا ہو گئی۔
26 اگست 2006 کی سہ پہر کو بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی کی ایک پہاڑی پر آپریشن کے دوران بلوچ قوم پرست سیاسی رہنما، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ، سابق گورنر و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کی خبر ان کے چاہنے والوں پر بجلی بن کر گری، اور پھر جیسے قیامت ٹوٹ گئی ہو، دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان بھر میں پُر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد گرفتار جبکہ کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔
بلوچستان میں شورش کے دوران حکومت بلوچستان نے بلوچ شدت پسندوں کو قومی دھارے میں شمولیت کی دعوت بھی دی جس میں 2012 سے لیکر 2017 تک وقتاً فوقتاً فراری ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے۔بلوچستان میں آج بھی حالات معمول پر نہیں ہیں مگر اس شورش کا حل سیاسی طریقے سے تلاش کرنے میں ہی بہتری ہو سکتی ہے۔