بلوچ کسی صورت اپنی سرزمین سے دستبردار نہیں ہونگے،میر کبیر محمدشہی
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر)نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر میر کبیر احمد محمدشہی نے کہا ہے کہ حکمرانوں کی خام خیالی ہے کہ وہ طاقت اور تشدد کے زریعے بلوچوں کو ان کے قومی حقوق اور سرزمین سے دستبردار کرائینگے۔ بلوچ قوم اپنی شناخت، ساحل و وسائل اور حق حاکمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقد ہونے والے بلوچ اجتماع میں شرکت کے لیے جانے والے پرامن اور نہتے بلوچ عوام، سیاسی کارکنوں، خواتین اور بچوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال، کریک ڈاون، فائرنگ، شیلنگ اور گرفتاریاں فسطائیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ بلوچوں کی جمہوری جدوجہد سے خوفزدہ حکومتی عناصر پرامن مظاہرین پر کریک ڈاون اور گولیاں برسا کر بلوچ عوام کو تشدد پر اکسانے کی سازش کر رہے ہیں۔ حکومت اعلانیہ طور پر گوادر کو بلوچوں کے لیے ممنوعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ بلوچوں کو گوادر میں سیاسی سرگرمیوں کا حق نہیں۔ نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین کی گرفتاری اور چادر و چاردیواری کی پامالی حکمرانوں کے عزائم کو واضح کرتی ہے کہ انکے لیے گوادر میں بلوچ حقوق کے لیے اٹھنے والی جمہوری آواز بھی قابل قبول نہیں۔ بلوچ گوادر سمیت اپنی سرزمین کے کسی بھی حصے سے دستبردار نہیں ہونگے۔ بلوچ عوام کی آواز اجاگر کرنے والے اخبارات کو بھی سزا کے طور پر اشتہارات سے محروم کردیا گیا ہے۔ بلوچوں کو بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش کرنے والے عناصر اس ملک اور ریاست کے بھی خیرخواہ نہیں بلکہ ان کی کرسی اور دولت کا تحفظ بلوچستان میں عدم تحفظ اور حالات کی خرابی پر منحصر ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کٹھ پتلی حکومتی عناصر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بلوچستان میں نفرتوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ خواتین اور بچوں پر تشدد کے نتائج انتہائی بھیانک ہونگے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور افراتفری پھیلانے کے بجائے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا گوادر میں جلسہ منعقد کرنے کا آئینی و جمہوری حق تسلیم کریں، گرفتار سیاسی رہنماوں اور مظاہرین کو فوری طور پر رہا کریں، شاہراہیں کھول کر بلوچستان میں حالات معمول پر لائے جائیں اور پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور انسانی جانوں کے نقصان کے ذمہ دار عناصر کو جوابدہ بنایا جائے۔ آپریشن اور طاقت سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہونا ہوتا تو 1948 میں ہی حل ہوجاتا۔ حکمران ماضی کے تجربات دہرانے کی احمقانہ حرکتوں سے باز آجائیں۔ بلوچستان میں جاری جبر اور سیاسی عمل پر قدغنیں ختم کر کے بامعنی سیاسی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔