انٹرنیشنل فسٹیولا ڈے کے انعقاد کا مقصد خواتین کو آگاہی فراہم کرنا ہے،پروفیسر ڈاکٹرعظمی
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) پروفیسر ڈاکٹر عظمی نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل فسٹیولا ڈے کے انعقاد کا مقصد خواتین کو آگاہی فراہم کرنا اور اس سے بچنے کیلئے شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے فسٹیولا میں مبتلا عورتوں کی علاج کے ذریعے زندگی بدلنا مقصد ہے اس بیماری کے خاتمے کیلئے ملک بھر میں 9 مراکز میں فسٹیولا میں مبتلا خواتین کا مفت علاج کے ساتھ سفری اخراجات بھی ادا کئے جاتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں آبسٹیٹرک فسٹیولا کے خاتمہ کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان نیشنل فورم ان ویمز ہیلتھ عہدیداران ڈاکٹر مریم شعیب، ڈاکٹر سرمد، ڈاکٹر سرور و دیگر کے ہمراہ کو ئٹہ پر یس کلب میں پریس کانفرنس کر تے ہو ئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ فسٹیولا بیماری کی آگاہی و خاتمہ کیلئے تمام تر صلاحیتوں کو بر و کارلانے کی ضرورت ہے 2030 تک فسٹیولا کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے ہونگیں۔ دنیا بھر میں ترقی پزیر ممالک میں بہت سی بیماریوں اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے اقوام متحدہ مختلف مواقع پر ایسے بین الاقوامی دن منعقد کرتی ہے جس سے لوگوں میں ان بیماریوں سے بچنے کا شعور اجاگر کیا جاسکے۔ انٹر نیشنل فسٹیولا ڈے کا انعقاد بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا بنیادی مقصد فسٹیول میں مبتلا عورتوں کی تلاش اور کامیاب علاج کے ذریعے ان کی زندگیوں کو بدلنا ہے۔ فسٹیولا کی بیماری بھی بد قسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں بسنے والی عورتوں کی ایسی بیماری ہے جس سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کا موثر علاج بھی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں عورت کو برابری کا مقام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی صحت کی بنیادی سہولتیں موجود ہیں۔ اسی سلسلے میں 21 نومبر 2012 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے 23 مئی کو دنیا بھر میں انٹر نیشنل فیسٹیولا ڈے کے حوالے سے منانے کا اعلان کیا ہے تاکہ دنیا بھر میں ماؤں کی صحت کے حوالے سے آگاہی کو اجاگر کیا جاسکے اور فسٹیولا جیسی مہلک بیماری سے بچایا جاسکے۔انہو ں نے کہا کہ تقریباً 20 لاکھ خواتین دنیا بھر میں اس موزی مرض کا شکار ہو کر معاشرے سے علیحدگی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں تقریبا سالانہ 4 سے 5 ہزار خواتین اس بیماری کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ معاشرتی ناہمواری، فرسودہ رسم و رواج، غربت تعلیم کی کمی فیملی پلانگ سہولتوں کی عدم دستیابی، تربیت یافتہ صحت کے کارکنوں کی کمی اور علاقائی سطح پر بنیادی سہولتوں کا نا پید ہونا شامل ہیں۔ پاکستان میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے فسٹیولا کی بھی پائی جاتی ہے جو کہ جراہی کے دوران بن جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نیشنل فورم آن وومن ہیلتھ کو اس سلسلے میں بہت تشویش لاحق ہے اور وہ مطالبہ کرتی ہے کہ صحت کے شعبے سے وابسطہ تمام ادارے خصوصاً پی ایم ڈی سی اور سی پی ایس پی اپنے تمام پالیسز، رجسٹریشن اور پوسٹ گریجویٹ ٹرینگ کو از سر نو مرتب کرے اور ایسے تمام ڈاکٹروں کو تنبیہ کی جائے جو اس طرح کی پریکٹس میں ملوث ہیں۔ پاکستان نیشنل فورم آن وومن ہیلتھ 2005 سے، یو این ایف پی اے کے تعاون سے ایسی تمام خواتین کا ملک بھر میں مفت علاج کر رہی ہے، 2017ء سے اب یہ تمام سہولیات فسٹیولا فاؤنڈیشن اور یو این ایف پی اے سے تعاون سے مہیا کی جارہی ہیں، جو فسٹیولا کے مرض میں مبتلا ہیں ملک بھر میں ایسے 9 مراکز بنائے گئے ہیں جہاں پر ان مریضوں کا نہ صرف مفت علاج ہوتا ہے بلکہ انہیں سفری اخراجات بھی دیئے جاتے ہیں تا کہ وہ فسٹیولا مراکز میں پہنچ سکیں۔ یہ مراکز کراچی، حیدر آباد، لاڑکانہ، ملتان، لاہور، کوئٹہ، پشاور، ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں واقع ہیں۔اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق انٹر نیشنل ڈے کے حوالے سے پی ایم اے مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت پاکستان یہ عہد کرے کہ فسٹیولا کے خاتمے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔ بڑے پیمانے پر مڈ وائف کی ٹرینگ شروع کی جائے اور انہیں بہتر سروس اسٹکچر دیا جائے تاکہ ہر حاملہ خاتون کی دیکھ بھال اور زیر نگرانی زچگی کا عمل ممکن بنایا جاسکے اور فسٹیولا سے بچاو ممکن ہو سکے۔تمام بنیادی صحت کے مراکز اور دیہی صحت کے مراکز مکمل طور پر کام شروع کریں تا کہ خواتین کو بنیادی اور ایمر جنسی صحت کی سہولیات میسر آسکیں۔