صوبے میں جہاں گیس دستیاب نہیں، وہاں ایل پی جی پلانٹ لگائے جائیں،بلوچستان اسمبلی میں قرارداد منظور

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان اسمبلی نے 9 ہزار اساتذہ کی بھرتیوں اور تمام اضلاع میں ایل پی جی پلانٹ کی تنصیب، ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی سے متعلق قراردادیں منظور کرلیں۔بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر عبدالخالق اچکزئی کی زیر 45 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا، اجلاس میں اپوزیشن رکن میر اسد بلوچ کی جانب سے گزشتہ اجلاس میں پیش کردہ قرارداد پر دوبارہ بحث کا آغاز کیا گیا۔قرارداد پر بحث کرتے ہوئے میر اسد بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے 1952 سے نکلنے والی گیس کی ترسیل دوسرے صوبوں کو شروع دن سے جاری ہے جب کہ بلوچستان کے صرف 2 فیصد لوگ قدرتی گیس استعمال کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ باقی صوبہ گیس کی سہولت سے محروم ہے، جن علاقوں کو گیس فراہم کی گئی ہیں، ان میں بھی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت گیس کے حوالے سے وفاق سے رجوع کرے اور ان تمام اضلاع میں جہاں قدرتی گیس کی سہولت نہیں، وہاں ایل پی جی پلانٹ لگائے جائیں۔بحث کے بعد قرارداد کو متفقہ رائے سے منظور کرلیا گیا، اجلاس میں محکمہ صحت کے حوالے سے اپوزیشن رکن اسمبلی محمد صالح بلوچ کی جانب سے قرار داد پیش کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ صوبے کے ہسپتالوں کے لیے ادویات کی فراہمی کی بابت فنڈز مختص کیے جائیں۔قرارداد میں مطالبہ کیا گیاکہ محکمہ صحت کاسالانہ بجٹ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق ترتیب دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ صوبے کے غریب عوام کو صحت کی بہترسہولیات میسر ہوسکیں۔اپوزیشن رکن اسمبلی غلام دستگیر بادینی کا کہنا تھا کہ صوبے کے تمام ہسپتالوں کے شعبہ ایمرجنسی میں زندگی بچانے والی ادویات دستیاب ہونی چاہیں۔اس موقع پر صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت روایتی طریقے سے چل نہیں پا رہا ہے، مالی مسائل حل کرکے محکمے کی کارکردگی بہتر بناسکتے ہیں، دیگر اراکین اسمبلی کی جانب سے بحث کے بعد قرارداد کو متفقہ رائے سے منظور کرلیا گیا۔اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن (جے یو آئی ف)کے رہنما زابد ریکی کی جانب سے بسیمہ تا خاران روڈکو نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) میں شامل کرنے کے حوالے سے قرار دادپیش کی گئی، قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے جس کو ہردور میں نظر انداز کیاگیا اور آج کے جدید دور میں بھی بلوچستان میں آمدورفت کے لیے پختہ سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس میں کہا گیا کہ پکی سڑکیں نہ ہونے کے باعث ٹرانسپورٹرز اور تاجر برادری کو ملک کے دیگر صوبوں کو غذائی اجناس اور دیگر تجارت میں مشکلات کا سامنا ہے۔بلوچستان اسمبلی نے زابد ریکی کی پیش کردہ قرارداد نمٹادی۔اجلاس کے دوران وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دور حکومت میں سردار بہادر خان یونیورسٹی کے ذریعے ہونیوالے ٹیسٹ و انٹرویوز پر پورے بلوچستان کو تحفظات ہیں، لہذا ایک تحریک کے ذریعے یہ معاملہ بلوچستان اسمبلی میں زیر بحث لایا جائے جسے آئندہ اجلاس میں بحث کے لئے منظور کیا گیا۔بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 23 مئی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے