اپنے گناہوں کو کسی اور کے کھاتے میں ڈالنا سیاسی وطیرہ بن چکا ہے،نواب رئیسانی کا بیان مضحکہ خیز ہے،نیشنل پارٹی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے سابق وزیراعلی نواب محمد اسلم خان رہیسانی کے اس بیان کو مضحکہ خیز اور سیاق وسباق سے ہٹ کر قرار دیا کہ گوادر کو باڑ لگانے کا سہرا ان جماعتوں کو جاتا ہے جنہوں نے مری میں حکومت ترتیب دی اور گوادر میں وزیراعلی سیکریٹریٹ کو آباد کرنے کے بجائے فوج کے حوالے کی، پہلی بات تو یہ ہے کہ نواب صاحب اپنے دور حکومت میں وزیراعلی سیکریٹریٹ کو وقت دیکر عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ذیادہ وقت اسلام آباد کے پرفضا مقام پر گزارتے فائلیں خصوصی جہاز میں اسلام آباد جاتے اور وہاں سے نکل کر گوادر کے پی سی ہوٹل میں ساحل سمندر پر قیام پزیر ہوتے، ساحل سمندر پر تین کمروں پہ مشتمل ریسٹ ہاوس کو وزیر اعلی سیکریٹریٹ اور سرماہی دارالحکومت قرار دینا دراصل ساحل پر پی سی ہوٹل میں قیام کا ایک بہانہ تھالیکن نیشنل پارٹی نے گوادر کو سنجیدہ لیا گوادر میں وزیراعلی سیکریٹریٹ کے مستقل قیام کے لیئے مستقل اسامیاں منظور کیئں اور مشرف دور حکومت میں لاکھوں ایکڑ الاٹ کردہ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کی اور منظور کردہ اسامیوں پر تعنیاتیوں کے مراحل میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وزارت اعلی کا ڈھائی سالہ دور ختم ہوا بعد ازاں اس سیکریٹریٹ کو فوج کے حوالے کیا گیا جس کا ذکر نواب اسلم خان رہیسانی نے کی ہے، جہاں تک گوادر کو باڑ لگانے سے بچانے میں اس سیکریٹریٹ کا کردار ہے نواب صاحب کے دور حکومت میں تو سریاب روڈ سے گوادر تک باڑ لگا تھا ہر دو سو میٹر پر ایک سپاہی بزگوں کو ان کے جوان بیٹوں بیٹیوں کے سامنے بے عزت کرتا کوئٹہ سے مستونگ تک کئی شریف النفس شہری اغواہ ہوئے قومی شاہراہیں رہزنوں اور اغوا کاروں کے قبضے میں تھے گوادر میں بڑے بڑے ہاوسز کے نام پراور اشرافیہ کو زمینیں الاٹ ہورہی تھیں ہزارہ برادری کے سینکڑوں افراد شہید کیئے جارہے تھے ، ریکوڈک کا پنڈورا بکس بھی اسی دور کا نتیجہ ہے جس کے لیئے خطیر رقم نکالی گئی، گوادر کا پہلا معائدہ مشرف دور حکومت میں ہوا جس کے فوری بعد نواب صاحب وزیراعلی بن گئے تو انہوں نے سنگاپور سے کیئے گئے معائدہ پر کوئی اعتراض نہیں کی بلکہ بارہا یہ کہتے رہے کہ اگر مذاحمت کار مداخلت نہ کریں تو گوادر سنگاپور بن جاہیگا بعد ازاں دوسرا معائدہ جو سنگاپور نے چین کے ساتھ کی وہ معائدہ نواب صاحب کے ہی دور حکومت میں طے پایا ، جن منصوبوں کے تحفظ کے لیئے آج گوادر میں باڑ لگائے جارہے ہیں یہ سارے منصوبے مشرف دور حکومت بعد ازاں 2008سے2013 تک منظور ہوئے بدقسمتی سے اپنے گناہوں کو کسی دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے کا ایک وطیرہ چلا آرہا ہے جسے آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ختم ہونا چاہیے۔