آپ سیدھا لکھوا لیتے ڈی ایچ اے قانون سے بالاتر ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بحریہ ٹاؤن اور ریونیو ایمپلائز سوسائٹی کیس کی سماعت کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ شہدا کے نام پر ڈی ایچ اے کی زمین آگے کیوں بیچ رہے ہیں، پیسے کمانے ہیں تو کمائیں شہیدوں کے نام تو بیچ میں مت لائیں۔ ڈی ایچ اے کا نہ کوئی آڈٹ ہوتا ہے اور نہ کوئی قانون ہے، آپ سیدھا لکھوا لیتے ڈی ایچ اے قانون سے بالاتر ہے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کرتے ہوئے آج کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بحریہ ٹاؤن اور ریونیو ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے سماعت لائیو نشر کرنے کی ہدایت کردی اور ریمارکس دیے کہ پرویزمشرف، پرویزالہٰی اور ملک ریاض اس معاملے میں مرکزی کردار ہیں۔ یہ پاکستان کے اصل مالک ہیں، میڈیا پر بھی ان کے خلاف کوئی خبرنہیں چلتی۔ یہ لوگ بہت طاقتور ہیں انہوں نے سب خریدا ہوا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیدھا سادا دھندہ کررہے ہیں، پیسہ کمانا ہے تو کمائیں شہیدوں کو بیچ میں مت لائیں، شہدا کے نام لے کر تذلیل مت کریں اوران کا نام لے کر کتنا نکالیں گے۔ وزیر اعلیٰ کون ہوتا ہے ایسا معاہدہ کروانے والا؟ یہ ڈیل سیکرٹ کیوں ہوئی، اور اگر سیکرٹ نہیں تھی تو پھر مجھے اس کی کوئی اخباری خبر دکھا دیں۔
بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے وکیل حسن رضا پاشا نے مقدمہ لائیو چلانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدالت پہلے ہمیں سن لے، جسٹس عرفان سعادت نے اسفسار کیا کہ ڈی ایچ اے ہاؤسنگ اتھارٹی شہدا کے لیے بنائی گئی تھی، کیا ڈی ایچ اے صرف شہدا کے لیے کام کر رہی ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ اس منصوبے میں کمرشل پلاٹس بھی ہوتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت بولے کہ کیا یہ درست ہے کہ یہ زمین عسکری 14 پلاٹ بنا کر بیچ دے۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سوسائٹی 1989میں وجود میں آئی، 2005 میں سوسائٹی ضم ہوئی، 16کروڑ میں زمین 2882 کنال خریدی گئی، 2833کنال زمین بحریہ ٹاؤن کو ٹرانسفر ہوئی، زمین مزید آگے ڈی ایچ اے کو ٹرانسفر ہوئی، ریونیو سوسائٹی کے لیے ریٹائرڈ کرنل عبداللہ صدیق کو سوسائٹی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا، ریونیو سوسائٹی کی جنرل باڈی اجلاس میں اکثریت نے رائے دی کہ بحریہ ٹاؤن سے مرجر کیا جائے۔
وکیل بحریہ ٹاؤن کے مطابق 304 کے اجتماع میں سے صرف 14 ممبران نے سوسائٹی کے بحریہ ٹاؤن میں ضم ہونے کی مخالفت کی۔ چیف جسٹس بولے آپ ہمارے ساتھ لگتا ہے مذاق کر رہے ہیں، ایک کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی ایکٹ ہے اس کا سب پر اطلاق ہوتا ہے، اس قانون کی کسی ایک شق سے مخصوص حالات میں کسی کو استثنیٰ مل سکتا ہے، حکومت پنجاب نے ماشا اللہ کہہ دیا پورا کا پورا قانون آپ پر لاگو نہیں، انہوں نے کہا پورا کا پورا قانون ٹوکری میں پھینک دو ہم آزاد ہیں۔’یہاں نظام بادشاہت کا ہے، ایک وزیر نے اس سارے معاملے کی مخالفت کی تھی، اس کے بعد وزیر اعلیٰ سے منظوری کیسے ہوئی؟ سیکرٹری کے دستخط ہیں وزیراعلیٰ نے خود دستخط کیوں نہیں کیے؟ کیا اس لیے دستخط نہیں کرتے کہ کل پھنس جائیں گے؟ معاملے پر وزیر اعلیٰ نے جو کمیٹی بنائی اس میں بندے بھی بحریہ ٹاون کے رکھے گئے‘۔
قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جس سے آپ معاہدہ کرنے جا رہے ہیں اس کا بندہ اس طرف بھی بیٹھا ہے اس طرف بھی، یہ کتنی خوبصورت بات ہے، نایاب بات نہیں ہے؟ کیا ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی کو بند کرتے وقت اشتہار دیا گیا؟’کیا بولی مانگی گئی کہ اس سوسائٹی کے لیے بلڈرز سامنے آئیں؟ آپ نے خود انتخاب کر لیا کہ بحریہ ٹاون سے ہی معاہدہ کرنا ہے؟ بس حکم آگیا تھا وزیر اعلیٰ کے دربار سے کہ معاہدہ کرلو، کیا یہ زرعی زمین تھی؟ آپ زرعی پلاٹ دے رہے ہیں؟ آپ پاکستان کے کتنے قانون توڑیں گے؟ لینڈ ریونیو ایک زرعی زمین سے متعلق ہوتا ہے‘۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ زرعی زمین کو خرید کر رہائشی میں بدلنے کی اجازت کہاں لی؟ یہ تو آپ کی پوری سوسائٹی ہی غیر قانونی ہے، آپ دکھائیں اس اجازت کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ پاکستان جو خوراک میں خود کفیل تھا اب نہیں رہے گا، اب ہر جگہ ہاؤسنگ اسکیمز بن رہی ہیں اور مکمل غیر قانونی ہیں۔’آپ کہہ رہے ہیں زرعی زمین کمرشل مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے؟ آپ کو فہرست بتائیں آپ نے کتنے قوانین کی خلاف ورزی کی؟ یہ فہرست ختم نہیں ہوگی، زرعی زمین ریاست اور عوام پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاون کو دیکھیں ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا؟ کیا یہ قانون سے بالاتر ہیں؟ کہیں سفر کریں ہر طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں دکھائی دیتی ہیں، زرعی زمین شاید اتنا مالی فائدہ نہیں پہنچاتی اس لیے لوگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں، یہ مگر ریاست کی ذمہ داری ہے زرعی زمین بچائے، سوسائٹی میں صرف سرمایہ کاری ہوتی ہے زمین پڑی رہتی ہے، جن کو حقیقت میں گھر کی ضرورت ہوتی ہے ان کی پہنچ سے ہی یہ زمین باہر ہو جاتی ہے، پاکستان گندم برآمد کرتا تھا اب درآمد کرتا ہے، دریا آلودہ کیے جا چکے ہیں۔
عدالت نے زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سے جواب طلب کردیا، فریقین کو آپس میں میٹنگ کرکے متاثرین کا ازالہ کرنے کی راہ نکالنے کا وقت دے دیا گیا۔بعد ازاں چیف جسٹس نے کیس کا حکمنامہ لکھوا دیا، جس کے مطابق بحریہ ٹاؤن میں کوآپریٹو سوسائٹی کے انضمام کا معاہدہ نافہم قرار دیا گیا، بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا وہ متاثرین کے تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں۔ جس پر عدالت نے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔