بلوچستان اسمبلی اجلاس،ذوالفقار علی بھٹو کو سر کاری طور پر شہید اور قومی جمہوری ہیرو قرار دینے کی قرار داد منظور
کوئٹہ(ڈیلی گر ین گوادر)بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو سر کاری طور پر شہید کا درجہ دینے اور قومی جمہوری ہیرو قرار دینے اور قلعہ سیف اللہ میں بم دھماکے میں شہید ہونے والے شہریوں کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی زخمیوں کو ریلیف دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کی الگ الگ قرار دادیں منظور کرلی گئیں۔ جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 1گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے گوادر انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے مارشل لاء ہو یا جمہوری ادوار ہر دور میں گوادر کو ترقی دینے کے دعوے کئے گئے تاہم آج بھی گوادر اسی مقام پر کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت اربوں ڈالر خرچ ہوئے مگر گوادر پر کوئی پیسہ نہیں لگا مسقط نے دو مختلف بار 65ارب ریال گوادر کے لئے فراہم کئے،ورلڈ بینک، وفاقی حکومتوں نے پیسے دئیے تاہم گوادر کے لئے اعلان کے علاوہ عملدآمد نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ گوادر صرف طاقتور قوتوں کے لئے بزنس سینٹر ہے صوبے میں کل اینڈ ڈمپ کی پالیسی جاری ہے اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ایک بھی سیاسی شخص اسمبلی میں نہیں رہے گا۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک نے کہا کہ جب قوم پرست اقتدار میں ہوتے ہیں انہیں گوادر کی مائیں بہنیں یاد نہیں آتی اب انہیں گوادر نظر آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سریاب میں گزشتہ دو ماہ سے گیس پریشرکا مسئلہ برقرار ہے سوئی گیس کے جنرل منیجر کو جب بھی بتایا وہ کہتے ہیں ایک گھنٹے میں گیس بحال ہوگی مگر صورتحال جوں کی توں ہے جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی کوئٹہ کو اسمبلی طلب کیا جائے۔اس موقع پر ارکان اسمبلی میر سلیم کھوسہ، برکت علی رند، میر زابد علی ریکی نے صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اوقات فراہمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک آرہا ہے صوبے میں بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں دن میں صرف 3گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے لوگ بل ادا کرنا چاہتے ہیں تعاون بھی کرنا چاہتے ہیں مگر رمضان المبار ک کے بعد اس حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جائے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ کیسکو چیف کو اسمبلی طلب کر کے اس حوالے سے بات کی جائے۔ بعدازاں اجلاس میں جمعہ کی نماز کا وقفہ کیا گیا۔ نماز کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے رکن میر محمد صادق عمرانی نے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی، اراکین اسمبلی نواب ثناء اللہ زہری، سردار سرفراز چاکر ڈومکی، ظہور احمد بلیدی، محمد اصغر رند، میر علی مدد جتک، صمد خان، عبید اللہ، بخت محمد کاکڑ،اسفند یار خان کا کڑ،شہناز عمرانی مینا اور سنجے کمارکی جانب سے مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان 12 سال قبل صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے پہلے منتخب وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے کیس کو دوبارہ کھولنے کے لئے دائر صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی حالیہ تاریخی رائے کو سراہتا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے کے مطابق 45 سال قبل جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کوسزا موت سنائی گئی تو اس عمل کے دوران آئین کے انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے منصفانہ ٹرائیل کے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی رائے میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت عدالتی قتل تھا۔ اور انہیں منصفانہ ٹرائیل کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ اور یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام افراد آئین کی رو سے بلا تخصیص حیثیت و مرتبہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کئے جانے اور منصفانہ ٹرائیل کا حق رکھتے ہیں۔ چونکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم تھے اور وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 کے خالق بھی ہیں جس کی بنا انہیں بابائے آئین بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی بدولت ملک کے چاروں اکائیوں کو اکٹھا کیا گیا ہے اور اس کی بدولت پاکستان میں پائیدار پارلیمانی جمہوریت قائم ہوئی۔ لیکن ان کی اس عظیم کاوشوں کے باوجود ملک دشمن عناصر نے ان کے خلاف بے بنیاد من گھڑت اور جھوٹے مقدمات قائم کئے جس کی بنا پاکستان کے ایک عظیم اور سچے رہنما کو شہید کیا گیا۔ واضح رہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو تو جسمانی طور پر ختم کیا گیا۔ لیکن عملاً وہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہینگے۔ لہذا شہید ذوالفقار علی بھٹو کی ملک کے لئے عظیم خدمات اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی حالیہ رائے کی روشنی میں یہ ا یوان صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو سر کاری طور پر شہید کا درجہ دینے اور قومی جمہوری ہیرو ڈکلیر کرنے کا اعلان کرے۔قرار داد کی موضونیت پر بات کرتے محرک میر ظہور بلیدی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ہم سے جدا ہوئے مگر قاتل انکا نظریہ نہیں مار سکے آج انکا نظریہ پاکستان اور دنیا میں زندہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی فلاحی ریاست کی بنیادڈالی اور عوام کو سیاسی شعور دیا پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر ناقابل تسخیر بنایا جس کی پاداش میں اندورنی اور بیرونکی سازشوں کے تحت جعلی کیس میں انہیں سزا سنائی گئی۔انہوں نے کہا کہ صرف ذوالفقار علی بھٹو نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کو بھی پھانسی پر چڑھایا گیا ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں فیصلہ دینے والے بنچ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں یہ فیصلہ نہ صرف پیپلز پارٹی کے جیالوں بلکہ دنیا بھر کے روشن خیال اور جمہوری لوگوں کیلئے باعث تسکین ہے۔ قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رکن حاجی علی مدد جتک نے کہا کہ 4اپریل 1979کو عوام کی امیدوں کو جھوٹے مقدمے کے تحت قتل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو شناختی کارڈ، حقوق کے آواز اٹھانے کے لئے شعور دیا آج ثابت ہوگیا ہے کہ بھٹو زندہ ہے ہمارے ہزاروں کارکنوں نے شہید ہونے، جیلیں کاٹنے، مظالم سہنے کے باوجود بھی جئے بھٹو کا نعرہ نہیں چھوڑا۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کو 14سال قید رکھا اس کا بھی حساب ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آج ایک لیڈر کو بند کیا گیا تو اس نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے اور ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔جمعیت علماء اسلام کے رکن میر یونس عزیز زہری نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور مفتی محمود نے پاکستان کو ختم نبوت کا تحفہ دیا اور قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا اس قرار داد کی حمایت کرتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کو شہید اور قومی ہیرو قرار دیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رکن سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو عظیم قومی لیڈر تھے جب انکی پھانسی سے متعلق ریڈیو پر اعلان ہوا تو میں نے ریڈیو توڑ دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ عدالتیں فیصلے سنا دیتی ہیں مگر ملک و قوم اور خطے کا جو نقصان ہوا اس کا حساب کون دیگا۔عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ 44سال بعد یہ فیصلہ آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا وہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ تھے اور قومی سطح کے لیڈر تھے۔انہوں نے کہا کہ لوگ 302کے کیس میں قید کے دوران مر جاتے ہیں مگر بعد میں انہیں بری کیا جاتا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی قرار داد کی مکمل حمایت کرتی ہے اس پر عملدآمد کیا جانا چاہیے۔ بی این پی عوامی کے میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوریت کی جدوجہد کی اور انکی جدوجہد کو آج خراج تحسین پیش کرتے ہیں 44سال بعد جمہوریت جیت گئی اور آمریت ہا ر گئی یہ فیصلہ عدلیہ کے لئے بھی سوال ہے پی سی او ججز بھرتی کئے جاتے ہیں اور پسند نا پسند کی بناء پر فیصلے کروائے جاتے ہیں ملک آج بھی ایسے فیصلوں کی وجہ سے کشکول اٹھائے گھوم رہا ہے ملک کو آگے بڑھانا ہے تو جمہوریت کو چلنے دیا جائے۔بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن میر یونس عزیز زہری نے اصغرعلی ترین، میر ظفر اللہ زہری ڈاکٹر محمد نواز کی جانب سے مشترکہ قرار داد اور مولوی نور اللہ کی جانب سے جمع کروائی گئی قرار داد کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ مورخہ 07 فروری 2024 کو قلعہ سیف اللہ میں جمعیت علماء اسلام کے انتخابی دفتر کے قریب بم دھما کہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں تقریبا 10 معصوم شہری شہید اور متعدد افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔ جن کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا۔ لیکن حکومت کی جانب سے تا حال شہید ہونے والے شہریوں کے لواحقین اور زخمی ہونے والے افراد کی ریلیف کے لئے کوئی خاطر خواہاقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ قلعہ سیف اللہ بم دھماکے میں شہید ہونے والے بے گناہ شہریوں کے لواحقین کے معاوضے اور زخمی ہونے والے افراد کے لئے فوری طور پر ریلیف دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے مولوی نور اللہ کی جانب سے اسی موضوع پر جمع کروائی گئی قرار داد کو بھی یکجا کر نے کی رولنگ دی۔قرار داد پراظہار خیال میر یونس عزیز زہری، اصغر علی ترین نے کہا کہ قلعہ سیف اللہ دھماکے لواحقین آج بھی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں خانوزئی میں بھی دھماکہ ہواجس میں کئی لوگ شہید ہوئے لوگ غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں زخمیوں کے پاس علاج معالجے کے پیسے نہیں انکے علاج کا بندوبست اور ڈپٹی کمشنران سے رپورٹ طلب کر کے فوری طور پر معاوضہ ادا کیا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ خانوزئی،قلعہ سیف اللہ، خاران، قلعہ عبداللہ سمیت بلوچستان بھر میں دہشتگردی کے واقعات میں شہید ہونے والے افراد کو شہید قرار دیکر معاوضہ دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں بلوچستان کے غریب عوام کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں ریفلیف پیکج دیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو این ایف سی میں سب سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے صوبے کو بھی اپنے وسائل اپنے ہاتھ میں لیکر غربت کے خاتمے کے اقدامات اٹھانے چاہیئں۔قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے آزاد رکن مولوی نور اللہ نے کہا کہ قلعہ سیف اللہ کا نمائندہ ہوں اور قرار داد بھی سیکرٹری اسمبلی کے پاس جمع کروائی تھی مگر سیاسی اسکورننگ کے لئے اسی نوعیت کی دوسری قرار داد بھی پیش کی گئی ہے جبکہ پشین کے نمائندے خود اپنے علاقے پشین کے دھماکے کو بھول ہی گئے۔انہوں نے سوال کیا کہ جن لوگوں کے قرار داد پیش کی کیا ان میں سے کوئی شہداء کے نماز جنازہ میں گیا؟ یا ان کے پسماندگان کے پاس جاکر فاتحہ خوانی کی؟ انہوں نے کہا کہ قلعہ سیف اللہ کے شہداء کا جنازہ میں نے پڑھایا۔ابھی مولوی نور اللہ تقریر کر رہے تھے کہ ایوان میں جمعیت علماء اسلام کے ارکان نے شدید احتجاج کیا اس دوران کان پڑی آواز سنائی نہ دی اور شور شرابے کے دوران ہی قرار داد کو منظور کرنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیا۔