پاکستان ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کے لئے تیار ہے،سینیٹر محمد عبدالقادر

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پیٹرولیم و رسورسز اور سیاسی و اقتصادی امور کے ماہر سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا ہے کہ پاکستان توانائی کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے ایسے میں توانائی کے متبادل انتظامات کا بندوبست کرنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے تاکہ یہ بحران ملک کا پہیہ نہ روک سکے پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن پراجیکٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ایران نے اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن پراجیکٹ کو بروقت مکمل کر لیا ہے جبکہ ایران کی سرحد سے اندرون ملک تک پاکستان اس پراجیکٹ کو تاحال مکمل نہیں کر سکا۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے ایران پاکستان تعلقات بھی متاثر ہوئے اور پاکستان پر 18 ارب ڈالرز کا بھاری جرمانہ عائد کر دیا گیا پاکستان نے اس جرمانے سے بچنے کیلئے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بچھانے کا فیصلہ کر لیا ہے چنانچہ پہلے مرحلے پر گوادر سے ایران کی سرحد تک 81 کلومیٹر تک گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی781 کلومیٹر کے دوسرے مرحلے میں گیس پائپ لائن کو نواب شاہ سے جوڑا جائے گا. ایران پہلے ہی چھ ماہ کی مہلت دے چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے مرحلے میں گوادر سے ایران تک گیس پائپ لائن بچھانے کے ساتھ ہی گوادر کو گیس فراہم کرنے لگے گا اور یہ بات گوادر کی عوام کے لئے کسی بڑے تحفے سے کم نہیں گوادر کو سی پیک منصوبے کے حوالے سے کلیدی اہمیت حاصل ہے گوادر کو گیس فراہم کرنے سے گھریلو اور کمرشل صارفین کے لئے بے انتہا آسانیاں پیدا ہو جائیں گی اگر اس دوران امریکہ نے پاکستان ایران منصوبے پر اعتراض کیا اور ایران پر پابندیاں عائد کرنے کی بات کی تو پاکستان 18 ارب ڈالرز کے جرمانے سے بچ سکے گا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کرنے کی بات نہ کی تو پراجیکٹ کی تکمیل کا دوسرا مرحلہ شروع ہو جائے گا اسے نواب شاہ سے جوڑا جائے گا اور پھر ملک کی مین سپلائی لائن سے کنیکٹ کر دیا جائے گا پاکستان توانائی کے بدترین بحران کا سامنا کر رہا ہے گیس کی عدم دستیابی اور ناقابل برداشت بلوں نے عام صارفین کی کمر دوہری کر کے رکھ دی ہے پاکستان کو ہر حال میں توانائی کے منصوبوں کو مکمل کرنا ہوگا ورنہ ملک کا صنعتی نظام چلانا ناممکن ہو جائے گا پاکستان کی برآمدات گیس اور بجلی کے نرخوں کی وجہ سے پہلے ہی انتہائی کم سطح پر پہنچ چکی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے