عوام نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا ہے قوم پرست جماعتوں کا مسئلہ پیپلز پارٹی ہے، جمال شاہ کاکڑ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ محمود خان اچکزئی نے میاں شہباز شریف کے لئے جلسے میں جو الفاظ اور زبان استعمال کی وہ قابل مذمت ہے، سینئر سیاستدان کو ایسی زبان کا استعمال زیب نہیں دینا، انکی جماعت کا مسئلہ مسلم لیگ(ن) سے نہیں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے، بلوچستان میں عددی اعتبار سے مسلم لیگ(ن) سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے،حکومت سازی کے حوالے سے مرکزی قیادت اور پارلیمانی گروپ کا جو بھی فیصلہ ہو ا قبول ہوگا، جس کے نمبر گیم زیادہ ہوں حکومت اسی کی ہونی چاہیے۔یہ بات پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صوبائی صدر شیخ جعفر خان مندوخیل، جنرل سیکرٹری و رکن قومی اسمبلی جمال شاہ کاکڑ،رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے ارکان اسمبلی سردار مسعود لونی، میر شعیب نوشیروانی، مسلم لیگ(ن) کے رہنماء سعید الحسن مندوخیل، سردار فتح حسنی، میر دوستین ڈومکی سمیت دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے چیئر مین محمود خان اچکزئی سے گلہ ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعظم کے نامزد امیدوار میاں شہبا زشریف کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کئے یہ عمل ذیادتی ہے اور سیاست میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے جاتے، سینئر سیاستدان کے ایسے ریمارکس سن کر دکھ ہوا۔انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف نے کبھی نہیں کہا کہ وہ کسی کی آنکھوں کا تارا ہیں پتہ نہیں بڑے بھائی محمود خان کو یہ سب کچھ کس نے کہا انکا ٹکراؤ بھی ہماری جماعت سے نہیں ہے ہم سمجھتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے میرے اپنے حلقے میں پولنگ عملے کو 3کروڑ روپے دئیے گئے مگر سیاست میں ضبط اور تحمل ضروری ہے میاں صاحبان نے ہمیشہ محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت بلوچستان کے سیاستدانوں کی عزت کی ہے اور ہم سے زیادہ انہیں ترجیح دی ہے ہمیں ہدایات دیں کہانکے مقابلے میں امیدوار بھی کھڑے نہیں کریں۔انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی اور دیگر جماعتوں کو گلہ ہے کہ ان کے ساتھ ذیادتی ہوئی لیکن سب سے زیادہ ذیادتی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ہوئی ہے ہماری قومی اسمبلی کی دو جبکہ صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں پر بے ضابطگیاں ہوئی ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تاریخ کے بد ترین انتخابات تھے انتخابات میں ذیادتیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہیں گے انتخابات معطل کئے جائیں بہتر یہی ہے کہ جنہیں تنائج تسلیم نہیں وہ ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں جائیں اور اپنے مقدمات پیش کریں۔ایک سوال کے جواب میں شیخ جعفر مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان کے 51حلقوں میں مسلم لیگ(ن) اس وقت 11نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے دیگر سیاسی جماعتیں بھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ چلنے میں دلچپسی رکھتی ہیں ہم اس وقت تمام سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکان کے ساتھ رابطے میں ہیں گزشتہ روز ایک جماعت کی جانب سے تاثر دیا گیا کہ صوبے میں انکی حکومت بن رہی ہے لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان اب تک ایساکوئی معاہدہ نہیں ہوا پیپلز پارٹی کو اتحادی جماعت کے طور پر ساتھ لیکرچلیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت سازی کے امور کو فی الحال ہم لو پروفائل میں رکھ کر چل رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ پہلے اپنی تعداد پوری کریں بعد میں اتحادیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر وزیراعلیٰ کا امیدوار سامنے لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم مرکزی قیادت کے فیصلے کے پابند ہیں اب تک انکی جانب سے ہمیں کوئی عندیہ نہیں ملا جو بھی فیصلہ ہوگا اس پر عملدآمد کریں گے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے صوبائی جنرل سیکرٹری رکن قومی اسمبلی جمال شاہ کاکڑ نے کہا کہ ملک مشکل حالات سے گزرہا ہے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جو جماعت اکثریت میں ہے وہ حکومت بنائے گی امید ہے صوبے میں مسلم لیگ(ن) ہی مخلوط حکومت بنائے گی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ محمود خان اچکزئی کے الفاظ قابل مذمت ہیں یہ فٹ پاتھ کی زبان ہے کوئی بھی سیاستدان ایسی زبان استعمال نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کو 2018میں بھی دھماکے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ایک نشست ملی بعد میں انکی اپنی جماعت بھی ٹوٹ ہوگئی فیصلہ عوام کرتے ہیں 2018میں بھی عوام نے انکی جماعت کو مسترد کیا تھا اسکا غصہ وہ ہماری قیادت پر نہ نکالیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جماعت میری سیٹ پر بھی کہتی ہے کہ وہ جیتے تھے لیکن میں بتانا چاہتاہوں کہ بلدیاتی انتخابات میں 19میں سے 17یونین کونسل میں نے جیتی تھیں عوام نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا ہے قوم پرست جماعتوں کا مسئلہ پیپلز پارٹی ہے انکی سیٹیں انہیں ملی ہیں قوم پرست جماعتیں عوام کا راستہ روک کر انہیں سزا دی رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) حکومت بنائے گی اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام، بی اے پی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ رابطے جاری ہیں۔