من پسند افراد کو منتخب کروانے کے لیے خوف کی فضاء قائم کی جا رہی ہے،سرداراخترجان مینگل

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ڈیمو کریٹک پروسس کو میوزیکل چیئر بنا لیا ہے ہر کوئی اس جستجو میں ہے اس محنت میں لگا ہے کہ کب میوزک اسٹاپ ہوتا ہے اور وہ جاکر کسی کرسی پر بیٹھ جائے نوجوان طبقہ روز اول سے ہمیں اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ پارلیمانی سسٹم سے کچھ نہیں ہونے والا۔من پسند افراد کو منتخب کروانے کے لیے خوف کی فضا قائم کی جا رہی ہے جب یہاں پر جمہوریت ہے ہی نہیں تو آپ بلا وجہ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اور دن بدن ہم دیکھیں تو ان کی باتوں میں صداقت آتی جارہی ہے ہم جمہوری انداز میں الیکشن لڑ رہے ہیں،جی حضوری نہ کرنے کی وجہ سے میرے والد کے بعد میں بھی ناپسندیدہ میں سے ہوں بلوچستان میں مختلف قسم کی تحریکیں ہیں کچھ سیاسی طور پر کچھ قلم کی صورت میں، ایک ہم ہیں جو پارلیمانی سیاست کے ذریعے ایوانوں میں بلوچستان کی آواز پہنچاتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو مایوسی ہوگئے اور انہوں نے بندوقیں اٹھالیں۔ اب آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں، ریاست اور ریاستی اداروں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، ہمیں یہاں پر برابر شہری کے حقوق دیے جائیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں ہر الیکشن پچھلے الیکشن سے مختلف اور اس کے نتائج بڑے پیچیدہ نکلتے ہیں اور یہ جو الیکشن ہے یہ اپنی نوعیت کا واحد الیکشن ہوگا جس میں کمپیئن بھی آپ کو نہیں کرنے دی گئی اور دفعہ 144 نافذ کردی گئی یعنی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ تھریٹ ہے۔جب ایک خوف طاری ہوجائے تو ظاہر ہے کہ عوام بھی نہیں نکلیں گے، پولنگ والے دن ووٹنگ ریشو بھی بہت کم رہے گااور اس کے بدلے میں شاید وہ اپنے من پسند لوگوں کو ٹھپے مار کر کامیاب کرادیں۔یہ ہمارے ادارے ہیں جنہیں خلائی مخلوق کہا جاتا ہے جن کی ذمے داری ہے کہ اپنے انسٹی ٹیوشن کو مضبوط کرنا، آپ ان کو کمزور کر رہے ہیں دنیا آپ پر ہنس رہی ہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں ڈیمو کریٹک پروسس کو میوزیکل چیئر بنا لیا ہے ہر کوئی اس جستجو میں ہے اس محنت میں لگا ہے کہ کب میوزک اسٹاپ ہوتا ہے اور وہ جاکر کسی کرسی پر بیٹھ جائے تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کیلئے جدوجہد کررہی ہیں اختیارات کیلئے نہیں۔سیاسی جماعتوں کی اپنی کمزوریاں ہیں اور ان ہی کمزوریوں کی وجہ سے ادارے ان سے غلط کام کرواتے ہیں اور پھر ان ہی غلط کاموں کی وجہ سے وہ انہیں بلیک میل کرتے ہیں اور اپنے مد مقابل کو کمزور کرتے ہیں۔ہم اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں رکھے ہوئے ہیں کہ اگلا الیکشن فری اینڈ فیئر ہوگا۔ میرے والد صاحب کو موقع ملا تھا نو مہینے کیلئے جب وہ ناپسندیدہ تھے تو ظاہر ہے میں بھی ان ہی کا بیٹا ہوں اور میں بھی ناپسندیدہ ہوں، پتا نہیں جانے انجانے میں ہم سے کوئی گستاخی ہوگئی ہے ان کی شان میں جس کی وجہ سے شاید ہم ناپسندیدہ ہیں، ہم نے کبھی ان کی جی حضوری نہیں کی۔ نوجوان طبقہ روز اول سے ہمیں اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ پارلیمانی سسٹم سے کچھ نہیں ہونے والا۔ جب یہاں پر جمہوریت ہے ہی نہیں تو آپ بلا وجہ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اور دن بدن ہم دیکھیں تو ان کی باتوں میں صداقت آتی جارہی ہے ہم جمہوری انداز میں الیکشن لڑ رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان جمہوری اداروں میں ہمیں اپنی بات کرنے کا موقع دیا جائے۔ ظاہر جب تمام دروازے بند کردیے جائیں گے تو بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے کون سا راستہ بچے گا۔ بلوچستان پیکج یا اٹھارہویں ترمیم کے بعد اختیارات ملے ہیں تو وہ اختیارات کن کو ملے ہیں، جو بلوچستان کی حقیقی قیادت ہے آپ انہیں اجازت تو دیں کہ وہ منتخب ہوکر آئیں جب آپ اپنے من پسندوں لوگوں کو منتخب کرکے لائیں گے، اپنی پارٹیاں بنائیں گے تو پھر آپ انہیں بلوچستان پیکج نہیں پورا پاکستان پیکج دیں پھر بھی بلوچستان میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ شاید بلوچ لاپتا افراد کے لواحقین کی ہم سے ناراضگی جائز ہو ان کی جو توقعات ہیں، ان کی جو امیدیں ہم سے وابستہ ہیں وہ پوری نہ ہوئی ہوں ہم ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پائے ہوں لیکن ہم نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی ہم نے کوشش کی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج میں شامل ہوں۔ کچھ پرنسپلز ہیں انہوں نے اپنے کچھ اصول رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت کو جھنڈوں کے کیساتھ نہیں چھوڑتے پھر بھی ہمارے رہنما اور کارکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ گئے ان سے اظہار یکجہتی کیا۔ ان کو ہماری پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دینا قبل از وقت ہوگا۔ وہ اپنے طرز پر بلوچستان میں اپنی سیاست چلانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں مختلف قسم کی تحریکیں ہیں کچھ سیاسی طور پر کچھ قلم کی صورت میں، ایک ہم ہیں جو پارلیمانی سیاست کے ذریعے ایوانوں میں بلوچستان کی آواز پہنچاتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو مایوسی ہوگئے اور انہوں نے بندوقیں اٹھالیں۔ اب آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں، ریاست اور ریاستی اداروں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، ہمیں یہاں پر برابر شہری کے حقوق دیے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے