بلوچ ماما آج جنگ میں مبتلا ہے اور اس ملک کے ساتھ ایسے جنگ کے ذریعے آپ اپنے حقوق نہیں لے سکتے،محمود خان اچکزئی

کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ملک کو کسی کی بد دعا لگی ہے ان ستر سالوں میں ہم اس میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ ملک کو قوموں کا ایک ایسا جمہوری فیڈریشن بناسکیں جس میں آئین وقانون کی حکمرانی قائم ہو۔ جس میں آئین کی بالادستی، جمہور کی حکمرانی قائم ہو، قانون امیر، غریب، کمزور، طاقتور کیلئے برابر ہو، جس میں فیصلے عوام کے ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتے ہوں اور پارلیمنٹ سپریم ہو۔ اگر چہ دو مرتبہ الیکشن میں دھاندلیوں کے نتیجے میں ہمیں بہت بڑا نقصان اُٹھانا پڑا بلکہ ہمارا ملک ٹوٹا ایک مرتبہ جب پہلا الیکشن جو کہ ایک فوجی جرنیل جنرل یحییٰ نے کیا جو واقعی غیر جانبدار انتخابات تھے،مشرقی پاکستان نے شیخ مجیب الرحمن کو ووٹ دیا جبکہ پنجاب اور سندھ کے عوام نے روٹی، کپڑا، مکان کے شعار کو ووٹ دیا۔ اور پشتونوں وبلوچوں نے قومی سوال کو ووٹ دیا بلوچستان اور پشتونستان۔ملک کے تمام عوام نے اپنی رائے کا اظہار ووٹ کے ذریعے دکھایا جس کو جو ضرورت تھی اور جو مسئلے تھے اُنہیں لوگوں نے ووٹ دیا جس کا مطلب یہ نکلا کہ لوگوں کو اس ملک میں دو سوال حل طلب نظر آئے اس ملک کا قومی سوال کہ یہاں مختلف قومیں آباد ہیں اور مطمئن نہیں ہیں اور دوسرا سوال اقتصادی،معاشی سوال تھا جہاں کے لوگوں نے غربت کی وجہ سے روٹی کپڑا مکان کو ووٹ دیا۔ اگر ہم اچھے لوگ ہوتے تو سن ستر سے سبق سیکھ کر ان سوالوں کو حل کرتے لیکن بدبختانہ شیخ مجیب نے جہاں سے الیکشن جیتے تھے انہیں ہم نے تسلیم نہیں کیا مردہ باد، زندہ باد کے نعرے لگے بلا آخر ملک دولخت ہوا۔ دوسری مرتبہ پھر وقت سے پہلے اسمبلی ٹوٹی الیکشن میں دھاندلی ہوئی جس کے نتیجے میں بھٹو کو پھانسی لگی اس کے باوجود لوگ اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ ملک میں آزادانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخوامیپ کے چیئرمین NA-266چمن،قلعہ عبداللہ اور NA-263کوئٹہ سٹی IIسے نامزد امیدوار محمود خان اچکزئی نے انتخابی مہم کے سلسلے میں حلقہ این اے 263اور حلقہ پی بی41ضلع کوئٹہ میں پشتون آباد خان شہید علاقائی یونٹ کے زیر اہتمام الکوزئی قبائل کی جانب سے اولسی جرگے اور شالدرہ دوئم علاقائی یونٹ کے زیر اہتمام دوست محمد بڑیچ کی رہائش گاہ پر اولسی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جس سے پی بی 41کے نامزد امیدوار پارٹی کو صوبائی صدر عبدالقہار خان ودان،منان نصرت، محمد رحیم الکوزئی، حاجی تور جان الکوزئی، حاجی گل محمد عرف گُلے الکوزئی،حاجی نصراللہ خان الکوزئی اورشالدرہ میں صاحب خان بڑیچ،حاجی عمر قریش، ڈاکٹر حبیب اللہ کاکڑ،منان نصرت اور عنایت خان بڑیچ نے بھی خطاب کیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اس وقت پاکستان انتہائی مشکل حالات میں قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے یہ ہمارا ملک ہے یہاں ہر انسان دوسرے انسان سے وہم اورخطرے میں ہے۔ ملک عالمی مالیاتی اداروں کا قرض دار ہے اور انکا حل اور علاج یہ ہے کہ ایک جمہوری پاکستان کی تشکیل نو ممکن بنائی جاسکے۔ 70سالوں میں ہم ایک پاکستانی قوم بنانے میں ناکام رہے ہم ایک دوسرے سے قوموں کی بنیا د پر نفرتیں بعض عداوتیں اور خوف رکھتے ہیں۔ اس حالت میں پشتونخواملی عوامی پارٹی ان قوتوں سے اپیل کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنی رائے کیلئے آزاد چھوڑا جائے چاہے وہ کسی کو بھی ووٹ دے ان میں مداخلت نہ کریں جو بھی جیتے انہیں پارلیمنٹ اور حکومت بننے دیں آپ کی طاقت کو کس نے چیلنج کرنا ہے اپنے لوگوں کو مارنا، ڈرانا، دھمکانا اپنے لوگوں کو کرپٹ کرنا یہ کہاں کا قانون ہے۔لوگوں کو پیسوں کے ذریعے اپنی رائے تبدیل کرنے کیلئے کام کرناملک کی مزید بربادیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ آدمی کو آپ پیسوں کے عیوض خرید کر ان سے اپنی بات منواتے ہو ایسے پھر دوسرے لوگ بھی آپ سے زیادہ رقم کے عیوض خرید سکتے ہیں اور انہیں آپ کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔خریدنے والے لوگوں کی کیا اوقات ہیں ان سے کس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے. پاکستان کے بچنے اور چلانے کا واحد راستہ جمہوری راستہ ہے جہاں امن ہو، انصاف کا بول بالا ہو جہاں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہو۔ قوموں کو اپنے وسائل پر اختیارات حاصل ہوں۔ فرقہ پرستی، مذہبی منافرتیں اور لسانی تفریق نہ ہو۔ ایسا پاکستان ایک خوبصورت ملک بن سکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی ایک جمہوری پاکستان کے بننے میں ہر کسی کے ساتھ تعاون کریگی، ایک آئینی ملک جس کے آئین میں سب کا دائرہ کار ودائرہ اختیار واضع ہو، پوری دنیاکی افواج ہیں اور بڑی مضبوط افواج ہیں لیکن وہ اپنے سیاستدانوں کو مشورے تودیتے ہیں اُنہیں بتاتے ہیں ضرور ہیں۔ وہ اپنے سیاستدانوں کے باہمی مشاورت سے اپنے دوستوں، دشمنوں پر بات کرتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کہ اپنے ملک کے انتخابات میں اپنے ہی لوگوں کو گھسیٹ کر ہراتے ہیں۔ ان ستر سالوں میں ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے ہم بھول جائیں گے لیکن آئیں ایک نئے اور مضبوط جمہوری پاکستان کی تشکیل نو میں مدد کریں۔ چھوڑیں لوگوں کو اپنی آزادانہ اظہار رائے کیلئے۔ تمام پارٹیاں متحد ہوں اور ملک کو ایک جمہوری پاکستان بنانے میں کردار ادا کریں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر چہ پشتونخواملی عوامی پارٹی تعداد کے لحاظ سے ملک کی چھوٹی پارٹی صحیح لیکن یہ پارٹی اپنے کارکنوں کی محنت سے پاکستان کے ہرمارشل لاء کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہی ہے قربانیاں دیں ہیں۔پشتونخوامیپ اس ملک کی واحد وہ پارٹی ہے جس نے ہر وقت آئین اور آئینی بالادستی کی بات کی ہے، اور پشتونخوامیپ نے اس ملک میں جس کا بھی ساتھ دیا ہے پھر اس کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا۔ پاکستان میں پنجابی،سندھی، بلوچ کے ماں، باپ اور بچوں کا جو حق ہے وہی پشتونوں کا ہونا چاہیے۔ یہ قابل قبول نہیں کہ سندھی، پنجابی اور بلوچ کے اپنے اپنے صوبے ہوں اور پشتون اس ملک میں تقسیم ہو۔ پشتونوں کا متحدہ صوبہ پشتونخوا، پشتونستان یا افغانیہ کے نام سے ہونالازمی ہوچکا ہے۔ آج یہ دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے پوری دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک حضرت آدم علیہ سلام اور بی بی حوا انا سے پیدا کیا ہے۔ ہمیں کسی انسان سے اس بنیاد پر نفرت نہیں کرنی چاہیے کہ اس کا رنگ، نسل، مذہب کیا ہے ہمیں پوری دنیا کے انسانوں کے ساتھ تمام معاملات سمیت تجارت میں ایماندارانہ رویہ رکھنا ہوگا اور لوگوں میں اپنی پہچان اصول پرست ایماندار قوم ثابت کرنا ہوگا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتون قوم جس کے آباء واجداد نے صدیوں تک بڑے خطے پر بادشاہتیں قائم کر رکھی ہیں آج ان کے بچے اپنے دو ہاتھوں سے دووقت کی روٹی کمانے کیلئے پریشان ہیں۔ پشتون قوم آج پوری دنیا میں سب سے سستا ترین مزدور ہے۔ہم نے محنت کرکے اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانا ہوگا۔ قوموں کے لوگ اپنی محنت کی وجہ سے دنیا کے قیمتی چیزیں بناتے ہیں کیونکہ وہ ہنر مند ہاتھوں کے مالک ہیں۔ دنیا نے علم وہنر سیکھ کر اپنی زندگیاں آسان بنائی ہیں اور یہ ہم بھی کرسکتے ہیں ہمیں اپنے بچوں کو علم وہنر کا خزانہ دینا ہوگا ایک انجینئر، ایک ڈاکٹر، ایک سائنس دا ن معمولی محنت کے نتیجے میں بہت آسودہ حال ہوسکتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتون اس لیئے خوش قسمت لوگ ہیں کہ ان کی زمین کی ایک ایک انچ واضع، انکے قبیلوں کے درمیان تقسیم ہے جس کا کسی بیوہ کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے قبیلے کی زمین کہاں سے کہاں تک ہے۔ دوسرا یہ کہ پشتون وطن میں دسترخوان پر امیر، غریب، سردار، نواب، دھقان، بزگر، مزدور، ترکان، لوہا رسب اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں اور مل کر کھانا کھاسکتے ہیں جو کہ دوسرے اقوام میں ایسا نہیں اور تیسرا یہ کہ پشتونخوا وطن میں مہمان کیلئے کھانے اور رات گزارنے کیلئے بسترہ مفت ملتا ہے۔ پشتون بہت جمہوری لوگ ہیں،صوبوں کے تقسیم کے دوران باچا خان، جی ایم سید، خیر بخش مری اور تمام سیاسی لیڈروں کا ہمارے ساتھ وعدہ تھا کہ ہم مل بیٹھ کر یہاں قوموں کے درمیان لسانی ثقافتی اور تاریخی جغرافیائی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل کرینگے لیکن یہ وعدہ ایفاء نہیں ہوا جس کی بنیاد پر خان شہید نے اپنے ان دوستوں سے اپنا راستہ الگ کیا اور جنوبی پشتونخوا میں اکیلے اس بات کیلئے از سر نو جدوجہد شروع کی کہ دیگر اقوام کے صوبے تو بنے لیکن پشتونوں کو محروم رکھا گیا۔ خان شہید کا ساتھ اُس وقت صرف چند غریب اور بے تعلیم لوگوں نے دیا آج خان شہید کا یہ لشکر اتنی کثیر انسانوں پر مشتمل ہے۔ اگر چہ پشتونوں، بلوچوں، سندھیوں، پنجابیوں کے جمہوری لوگوں نے محنت کی جیلیں کاٹیں، قربانیاں دیں لیکن صوبوں کی تقسیم کے وقت ہمارے ساتھ ہمارے دوستوں نے جفا کی جس کے نتیجے میں خان شہیدعبدالصمد خان اچکزئی نے مجبور ہوکر باچا خان، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی اور بنگالیوں کے ساتھ اپنی چالیس سالہ رفاقت توڑ دی۔ ان لوگوں کے پاس چلے گئے اپنے صوبے کا پوچھا لیکن انہوں نے بات نہیں مانی تو خان شہید نے اس سیاسی تحریک پشتونخوا میپ اور اس جھنڈے کی بنیاد رکھی۔ اور نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے صوبے کیلئے آواز اٹھائی۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ ظلم اوراپنی سرزمین دوسروں کیلئے چھوڑنا بے غیرتی ہے۔ ہم کسی کی سرزمین پر قابض نہیں بلکہ اپنے سرزمین کی دفاع کا تہیہ کر رکھا ہے کوئٹہ تاریخی طور پر پشتون افغان شہر ہے ہم گڑ بڑ نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم اپنے سرزمین پر انسانی قوانین، اقوام متحدہ کے قانون کے تحت،اسلامی اور تمام قوانین کے تحت پشتونوں کا اپنا صوبہ مانگتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہم عطاء اللہ مینگل، اختر جان مینگل اور سب بلوچ بھائیوں سے کہہ چکے ہیں کہ جب آپ سندھی اور پنجابی کے ساتھ بھائی بندی کے طرز پر اپنے حقوق برابری کی بنیاد پر مانگتے ہیں تو یہاں پشتونوں کے ساتھ بھی اس فارمولے کے تحت ان کی برابری تسلیم کرلیں۔ بلوچ ماما آج جنگ میں مبتلا ہے اور اس ملک کے ساتھ ایسے جنگ کے ذریعے آپ اپنے حقوق نہیں لے سکتے،آئیں ہمارے ساتھ مل کر سیاسی جدوجہد مردہ باد، زندہ باد کے ذریعے اپنے حقوق اکھٹے مل کر حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح دنیا میں اقوام برابر ہیں ہم پشتون بلوچ بھی اسی طرح برابری کی بنیاد پر رہ سکتے ہیں۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ چمن میں 100دن سے دھرنا بیٹھا ہوا ہے عوام حکومت یا ریاست کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں رکھتے۔ لوگ وہاں بیٹھے ہیں اور اپنی زمینوں پر آنے جانے کیلئے پابندی ہٹانا چاہتے ہیں لیکن ان کا مطالبہ کوئی نہیں مانتا ایسے احتجاج دنیا بھرمیں ہوتے ہیں لیکن وہاں کی ریاستیں اپنے بچوں کے مطالبات مان لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بادشاہی ہماری یہ پارٹی ہے اور اس پارٹی کو ہم نے مضبوط اور منظم بنانی ہوگی۔ قوم ایک زبان، کلچر، تاریخ، جغرافیہ رکھنے والے انسانوں کے ٹولے کو کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قوموں اور قبیلوں میں بناکر پیدا کیا۔ ہمیں ملامت کو ملامت کہنا ہوگا ایسی اپنائیت یا قبیلویت نہیں کرنی کہ ہمارا اپنا کسی پر ملامت ہو اور ہم ان کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ کبھی بھی ایسی بات دوسروں سے نہیں کہنی چاہیے جو ہم خود برداشت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے دن ہیں ہم اپنے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نامزد امیدواروں کی کامیابی کیلئے پارٹی کے انتخابی نشان ”درخت“ کو اپنا ووٹ دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے