بلوچستان قدرتی معدنیات اور وسائل کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے، سینیٹر مشاہد حسین سید
اسلام آباد/کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)سینیٹ کمیٹی برائے دفاع اور پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید،سینیٹر محمد عبدالقادر، لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل، سابق چیئرمین این ڈی ایم اے اور سابق ڈی جی ایف ڈبلیو او؛ محمد عامر رانا، ڈائریکٹر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز ایمبیسڈرسہیل محمود، ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز، اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی)، ایمبیسڈر (ر) مسعود خالد، سابق پاکستانی سفیر برائے چین، سلطان ایم حالی، سیکورٹی تجزیہ کارسابق صدر پی ایف یو جے شہزادہ ذوالفقار اور پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے کہا ہے کہ بلوچستان قدرتی معدنیات اور وسائل کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے سی پیک پاکستان کی خوشحالی کا ضامن اور سی پیک کے فریم ورک کے تحت مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے گوادر پورٹ کی مثبت تبدیلی کی صلاحیت پہلے ہی اقتصادی ترقی، روزگار کے مواقعوں کی فراہمی اور تجارت میں اضافہ اور سیاحت کی ترقی نمو کا ایک عنصر ہے۔ یہ بات انہوں نے پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ”جنوبی ایشیاء میں سیکورٹی کی صورتحال کا منظر نامہ“ کے موضوع پر ڈائیلاگ کا انعقادکے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ چین پاکستان کا ایک قابل اعتماد دوست ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) اور سی پیک پر روشنی ڈالی اور انہوں نے ”ترقی اور توانائی کے اہم خسارے کو دور کرنے“ پر زور دیا۔ ایمبیسڈر سہیل محمود نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ صدر شی جن پنگ کا جی ایس آئی ‘ایک متبادل نمونہ ہے جو دنیا میں امن کے قیام کی راہ ہموار کرتا ہے۔چین میں پاکستان کیسابق سفیر (ر) مسعود خالد نے پاکستان کے لئے ایک تبدیلی کے سفر پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ2013 میں سیکیورٹی کی چیلنجنگ صورتحال کے سبب پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کوئی بیرونی سرمایہ کار تیار نہیں تھا مگر چین نے سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ مسعود خالد نے مزید کہا کہ چین نے پاکستان کے اقتصادی منظرنامے کو ایک نئی شکل دی ہے جس سی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہواہے۔ ڈائلاگ کی صدارت چین میں پاکستان کے سابق سفیر معین الحق نے کی۔سینیٹر مشاہد حسین سیدنے اپنی ابتدائی تقریر میں موجودہ دہائی کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بڑھتے ہوئے تصادم اور تبدیلی کے رجحانات کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے سلامتی کے مسائل کے پرامن حل کے لئے ایک نئے فریم ورک کے طور پر چین کے گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو (جی ایس آئی) کی اہمیت پر روشنی ڈالی کیونکہ جی ایس آئی میں سیکورٹی کے ناقابل تقسیم ہونے پر توجہ مرکوز ہے اورجی ایس آئی تنازعات کے حل میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام سے جڑا ہواہے۔ سیکورٹی گورننس کے فریم ورک بشمول اے آئی، سائبر سیکورٹی اور متعلقہ سیکورٹی خطرات کے تدارک کو فروغ دینے کا ایک اہم محرک ہے۔ انہوں نے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں فلسطین میں جاری نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر تشویش کا اظہار کیا۔ سیکورٹی کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے تین نئی حقیقتوں پر تبادلہ خیال کیا 7 اکتوبر کے بعد مشرق وسطیٰ کے جمود کا ٹوٹنا، غیر ریاستی عناصر کی طرف سے درپیش سنگین چیلنجز، اور ایران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال جو اب ایک دوسرے یعنی علاقائی جغرافیائی سیاست سی جڑی ہوئی ہے جس کے حل کے لئے مکالمے اور سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے ایران کے بحران کے فوری اور ہموار حل کو ”کرائسس مینجمنٹ اور بحران کے حل کا نمونہ“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دو بحرانوں، پلوامہ 2019 اور پنجگور 2024 نے پاکستان کو بعض ‘علاقائی اصولوں ‘ کے قیام میں مدد فراہم کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ایران ہندوستان نہیں بلکہ ایک برادر مسلم ہمسایہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کے مفادات کا کوئی بنیادی ٹکراؤ نہیں ہے’۔ سینیٹر مشاہدنے خاص طو ر پر وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کی ایران کے ساتھ تناؤ سے نمٹنے کے لئے ایک پختہ، پر اعتماد، پراعتدال انداز کو برقرار رکھتے ہوئے تناؤ سے گریز کرنے کی حکمت عملی پر ان کی تعریف کی۔اپنے خطاب میں سینیٹر محمد عبدالقادر نے بلوچستان کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ صوبے میں غربت کی بلند شرح، بیروزگاری اور کثیروسائل کے باوجود مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے سینیٹر قادر نے وسائل کے ذمہ دارانہ انتظام اور مساوی تقسیم کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بنیادی ڈھانچے میں چینی سرمایہ کاری کا حوالہ دیتے ہوئے گوادر پورٹ کی مثبت تبدیلی کی صلاحیت پر زور دیا جس نے پہلے ہی اقتصادی ترقی، روزگار کے مواقعوں کی فراہمی اور تجارت میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے سیاحت کو ترقی اور نمو کا ایک عنصر قرار دیا۔ سابق چیئرمین این ڈی ایم اے اور سابق ڈی جی ایف ڈبلیو او لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل نے ”مغربی روٹ-سی پیک ترقی اور استحکام کے مواقع” پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دی۔ پریزنٹیشن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور دونوں ممالک کے لیے دلچسپی کے شعبوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس تجزیہ میں سی پیک کے تحت سڑک کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کی پیداوار میں کامیابیوں کو اجاگر کیا گیا مگر ریلوے کے شعبے کو ترجیح دینے، آبی وسائل اور آئی ٹی کے بنیادی ڈھانچے میں فوری خدشات کو دور کرنے اور نجی شعبے کے کردار پر زور دیا۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے ایشیا، مشرقی ایشیا، اور وسطی ایشیا کو ملانے والے قدیم راستوں پر اس کے اسٹریٹجک محل وقوع کے پس منظر میں اور ملک کی اقتصادی ترقی میں بلوچستان کے اہم کردار کی نشاندہی کی۔ پاکستان میں نظر آنے والی عالمی شمالی اور جنوب کی تقسیم کو حل بتاتے ہوئے محمد عامررانا نے اسے برطانوی کولونیل انتظامی نظام سے منسوب قرار دیا۔ عامررانا نے ماضی کی غلطیوں کے ازالے اور بلوچستان میں مقامی کمیونٹیز کے حقوق کے تحفظ کے مشترکہ مقصد پر زور دیا، دیرینہ مطالبات کو حل کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی طرف سے خاص طور پر بلوچستان اور گلگت بلتستان جیسے نظرانداز شدہ علاقوں میں ”اصلاح کی کوئی کوشش“ نہیں کی گئی۔انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل سفیر سہیل محمود نے اپنے خطاب میں چین کے ساتھ پاکستان کے غیر متزلزل تعلقات کی بنیادی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا ایک قابل اعتماد دوست ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) اور سی پیک پر روشنی ڈالی اور انہوں نے ”ترقی اور توانائی کے اہم خسارے کو دور کرنے“ پر زور دیا۔ ایمبیسڈر سہیل محمود نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ صدر شی جن پنگ کا جی ایس آئی ‘ایک متبادل نمونہ ہے جو دنیا میں امن کے قیام کی راہ ہموار کرتا ہے۔چین میں پاکستان کے سابق سفیر (ر) مسعود خالد نے پاکستان کے لئے ایک تبدیلی کے سفر پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ2013 میں سیکیورٹی کی چیلنجنگ صورتحال کے سبب پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کوئی بیرونی سرمایہ کار تیار نہیں تھا مگر چین نے سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ مسعود خالد نے کہا کہ چین نے پاکستان کے اقتصادی منظرنامے کو ایک نئی شکل دی ہے جس سی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہواہے۔معروف سیکورٹی تجزیہ کار اور چین پر سات کتابوں کے مصنف سلطان ایم حالی نے چین، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور سی پیک کے گرد سرگرداں مختلف طاقتوں کی سازشوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے بلوچستان کے معدنی اور قدرتی وسائل کے 1976 کے سروے کا حوالہ دیا جو کان کنی اور تلاش میں کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سی پیک کو پاکستان کی خوشحالی کا ضامن قرار دیا۔اس کے علا وہ انہوں نیسی پیک کے فریم ورک کے تحت مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔کوئٹہ پریس کلب کے صحافیوں کی تقاریر میں بلوچستان میں سیکورٹی کی صورتحال کے بارے میں عوامی تاثرات کی تشکیل میں میڈیا کے اہم کردار پر روشنی ڈالی گئی۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار، نورالحق بگٹی اور دانیال بٹ نے حکومت پر زور دیا کہ بلوچستان کے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی جائے،بلوچستان میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں اور حکومت کو نعروں اور وعدوں کی بجائے بیڈ گورننس اور کرپٹ طرز عمل کا خاتمہ کرنا چاہیے تاکہ سی پیک کی کامیاب ترقی کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔اپنے اختتامی کلمات میں پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ (پی سی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے تمام مقررین کا شکریہ ادا کیا۔ سال 2024 کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مصطفی حیدرسید نے سی پیک کے ثمرات کو بہتر بنانے کے لئے بلوچستان کے تما م اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعمیری ڈائلاگ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے سیمینار پر مبنی پی سی آئی کی جانب سے ایک رپورٹ کے آئندہ اجراء کا اعلان کیا جو بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر صوبے کے لوگوں کی ضروریات کے بارے میں رہنمائی فراہم کرے گی اور سیکورٹی چیلنجز کے تناظر میں آگے بڑھنے کا راستہ تجویز کرے گی جوپالیسی سازوں کے لییکارگرثابت ہوگی۔اس ڈالئلاگ میں میڈیا، سول سوسائٹی، پارلیمنٹ اور تعلیمی اداروں پر مشتمل تقریباً 100 سے زائد شرکاء نے شرکت کی ڈائلاگ میں ایک سوالات و جوابات کا سیشن بھی شامل تھا۔