بی این پی کی سیاست بلوچ سرزمین کے دفاع اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہے، سردار اخترجان مینگل

پنجگور(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر وسابق وزیراعلی بلوچستان سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ بی این پی کی سیاست بلوچ ننگ وناموس وسرزمین کے دفاع اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہے اگر ہم سودا گر ہوتے تو آج دوسروں کی طرح ہمیں بھی وہ مقام اور عزت نہیں ملتی اور ہم بھی عوام میں منہ چھپائے پھرتے بی این پی نے اقتدار سے زیادہ اقدار کو ترجیح دیا اس لیے آج اسے عوام سے دور رکھنے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں مگر جو قوتیں بی این پی کو عوام سے دور رکھنے کی کوششوں میں شامل ہیں انکو اس بات کا علم نہیں کہ بی این پی کا عوام سے جو رشتہ ہے وہ اٹوٹ ہے وہ کاغذات مسترد کرنے یا کسی دوسرے حربے سے ختم نہیں ہوسکتا بلکہ مظلوم کے لیے ہر جگہ آواز اٹھائی جاسکتی ہے یہ آواز صرف اسمبلیوں میں نہیں ہوتی بلکہ یہ آواز عوامی فورم پر بھی گونج سکتی۔ یہ بات انہوں نے پنجگور میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ ہمارا اصل سرمایہ عوام ہے اور ہم اپنے عوام کی خاطر سیاست کررہے ہیں بلوچ ننگ وناموس سرزمین ساحل وسائل کی خاطر ایک سیٹ توکیا ایک سو سٹیں بھی ہوتیں وہ بھی قربان کردیتے کرسی اور اقتدار کی خاطر ہم نے کھبی قومی مفادات کا سودا کیا تھا اور نہ کسی کے پھیچے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہے جو لوگ ڈھائی سال وزیراعلی اور ڈھائی سال وزراتوں کے مزے لوٹتے رہے جب انکے دور میں گوادر کا سودا ہورہا تھا انکو قومی مفاد کا خیال نہیں آیا اور وہ اس وقت ہاتھ باندھ کر سودے کا معاہدہ کرنے والوں کے پھیچے کھڑے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ گوادر میں بلوچوں کے لیے کچھ نہیں ہے یہ خیال انکو تب آنا چائیے تھا جب وہ مرکزی حکومت کے اتحادی اور پاور میں تھے مگر کرسی کو غنیمت سمجھ کر چھپ رہے جلسہ سے بی این پی کے مرکزی سکریٹری جنرل واجہ جہانزیب بلوچ, بی ایس اؤ کے مرکزی چیرمین بالاچ قادر, بی این پی کے مرکزی ڈپٹی جوائنٹ سیکرٹری میر نذیراحمد حلقہ 258 کے نامزد امیدوار حاجی زاہد حسین صوبائی اسمبلی حلقہ پی بی 29 ون دادمحمد بلوچ بی این پی کے ضلعی صدر و حلقہ پی بی 30 ٹو کے امیدوار حاجی عبدالغفار شمبے زئی میر نظام ملازئی ضلعی جنرل سکریٹری عبدالقدیر بلوچ, محسن جمیل, اور اسلم مینگل نے بھی خطاب کیا بی این پی کے کارکنوں نے جلسہ سے قبل ایک بڑی ریلی کا بھی اہتمام کیا جو سردار اخترجان مینگل کی قیادت میں مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا جلسہ گاہ کی جگہ عظمت اللہ چوک گرمکان میں آکر اختتام پزیر ہوا ریلی میں بی این پی کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی اور بی این پی کے جلسہ میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ گٹر نالی سڑک کی سیاست بلوچ قوم کے مسائل کا حل نہیں ہے بلوچ آج اپنی بقا ساحل وسائل شناخت اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا کررہا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچ ایک غیرت مند قوم ہے جس نے ایک سوکھی روٹی پر گزرا کرکے اپنی دستار اور اقدار کا خیال رکھا انہوں نے کہا کہ آج اس سرزمین کے عظیم باسیوں کا معیار گرانے کے لیے جو حربے استعمال ہورہے ہیں وہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے آیا ہمارے ووٹ کی قیمیت ایک شمسی فلیٹ ہے یا کسی جگہ گٹر نالی یا سڑک بناکر دینا ہے عوام اپنے ووٹ کو بلوچ کے اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھ استعمال کریں جس سے ان ماؤں بہنوں اور بوڑھے والدین جو اپنے پیاروں کے لیے نکلیں ہیں اس سے انکی اشک شوئی ہوسکے انہوں نے کہا کہ عوام کی طاقت انکا ووٹ ہے اگر وہ ووٹ ایک مقصد کے لیے دینگے تو اس سے تبدیلی ائے گا اگر کوئی امیدوار آکر اسے ایک شمسی اور دیگر چھوٹے چھوٹے مراعات کا جھانسہ دے کر اسکا ووٹ لے گا پھر اس پر کیا کہا جاسکتا ہے بی این پی عوام سے ووٹ گٹر نالی سڑک کے لیے نہیں مانگتا بی این پی کا مقصد ان ماؤں کے پیاروں کو لوٹانا اور بلوچ ننگ وناموس ساحل وسائل کی حفاظت کرنا ہے یہی بی این پی کی سیاسی مقصد اور منزل ہے سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ جب جام کمال کی حکومت کو گرایا گیا تو اس کا درد مکران میں زیادہ محسوس کیاگیا کچھ لوگ اس شدت تکلیف سے ایسے گزرے جیسا انکی اپنی حکومت گرائی گئی ہو ہم سے پہلے یہ لوگ خود ایک مکمل اور ایک آدھی حکومت کے وارت تھے مگر اس وقت انکو نا ساحل کا خیال آیا اور نہ وسائل اور بلوچستان کے اجتماعی مفادات کا وہ ہر معاہدے کے پھیچے ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے جام کمال کے جانے کے پھیچے ماتم جام سے عقیدت نہیں تھی بلکہ انکے ساتھ وہ ڈھیل تھا جس میں انکے سابق ایم پی ایز اور ایم این ایز کو 20 کروڑ روپے کے فنڈز ملنا تھا جو وہ اپنے حلقوں میں جاکر اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ تربت سے پنجگور پہنچنے والی لانگ مارچ کے شرکاء میں ہماری ماں بہنیں شامل تھیں جب وہ پنجگور میں پہنچے تو بی این پی کے مرکزی ومقامی قائدین نے انکا درد محسوس کرکے انکا نہ صرف استقبال کیا بلکہ انکے ساتھ کھڑے رہے بلوچستان میں قوم پرستی کا کارڈ دوسری جماعتیں بھی استعمال کرتی ہیں مگر انہوں نے اپنے ان مظلوموں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں دکھایا لاکھوں روپے جھنڈا مہم پر لگادیئے گئے مگر جو مائیں بہنیں سینکڑوں میلوں کی مسافت طے کرکے اس سردی میں پنجگور پہنچی تھیں یہ انکے سروں پر ایک معمولی دوپٹہ تو ڈال سکتے تھے مگر یہ بھی ان سے نہ ہوسکا اور اس کی جو وجہ تھی وہ کرسی ہاتھ سے نکل جانے کا ڈر تھا کہ کئیں انکے آقا ناراض نہ ہوجائیں بی این پی کا تاریخ گواہ ہے جب آواران ہمارے ہمارے خواتیں کو اٹھاگیا تھا تو بی این پی نے قومی اسمبلی میں اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کیا اور احتجاج کیا اس وقت بلوچستان کے مذید 15 ایم این ایز بھی تھے مگر ماسوائے سندھ کے کچھ ایم این ایز کے کسی دوسرے نے ہمارا ساتھ نہیں دیا اور بعض دوستوں نے ہمیں یہاں تک بھی کہا کہ آنے والی اسمبلی کم سے کم آپ لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہوگی اور ابھی سے ہمیں ان تجربات سے گزرا جارہا ہے ہمارے مقابلے میں ایک تائی لینڈی باشندہ جس کا شناختی کارڈ بھی 15 دسمبر کے بعد بنی ہے اور ووٹر لسٹوں میں اس کا نام بھی نہیں ہے اسے تمام الیکشن رولز کو بالائے رکھ کر الیکشن کے لیے اہل قراردیا گیا ہے جبکہ ہمارے معاملے میں روز ایک نیا ہتھکنڈا آزمایا جاتا ہے تاکہ یہ کسی طرح اسمبلیوں میں نہ جاسکیں جلسہ سے بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل واجہ جہانزیب بلوچ مرکزی جوائنٹ سیکرٹری میر نذیراحمد بی این پی کے مرکزی رہنما و حلقہ این اے 258 پنجگور کم کیچ حاجی زاہد حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی قربانیوں کا ایک تسلسل ہے بلوچ ننگ وناموس اور قومی بقا کی خاطر ہمارے سینکڑوں ساتھی شہید ہوئے اور ٹارچر سیلوں میں صعوبتیں برداشت کیں آج کے اس جلسہ میں پنجگور کے عوام کا جم غفیر اس بات کی غماز ہے کہ پنجگور کے غیور عوام سردار اخترجان مینگل سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور یہ جلسہ 8 فروری کے الیکشن کے لیے ایک ریفرنڈم بھی ہے یہ الگ بات ہے کہ طاقت ور قوتیں عوام کی رائے کو تبدیل کردیں انہوں نے کہا کہ کرپشن اور ٹینکی لیکس کس کے ناک کے نیچے ہوا کیا اس وقت کے سی ایم کو اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ انکے وزراء کرپشن کررہے ہیں بی این پی ایسی اقتدار کے پھیچے کھبی نہیں بھاگا جو بے اختیار اور دوسروں کے بھساکیوں کی بنیاد پر ملی ہو جب عوام مینڈیٹ دے گا تب اقتدار بامعنی ہوگا اورعوام کے مسائل ہوسکیں گے انہوں نے کہا کہ بلوچ ساحل وسائل اور قومی بقا کی خاطر بلوچ قوم کو اتحاد واتفاق کی طرف جانا ہوگا ہمارے جو نمائندے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جائیں گے ان کے لیے قومی مفاد زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا اور وہ قومی معاملات پر مصلحت پسندی کا شکار نہیں بنیں گے عوام سوچ سمجھ کر ووٹ دیں اور ایسے نمائندوں کو ووٹ دیں جو انکے اعتماد پر پوری اترتے ہوں ایسے لوگوں کو ہز گز سپورٹ نہ کریں جنہوں نے عوام کے پیسوں کو لوٹ کر زاتی زندگیوں کو پرطیش بنادیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے