بلوچستان میں اب تک پانچ وویمن پولیس اسٹیشن قائم کردئیے ہیں، آئی جی پولیس بلوچستان

سبی (ڈیلی گرین گوادر) آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے کہا ہے کہ مختلف سرکاری ڈیپارٹمنٹس میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جہاں پہ خواتین کبھی زیادہ تر جو خواتین پہ تشدد کے واقعات ہیں یا اور جو پولیسنگ کے ایشوز ہیں ان سے ریلیٹڈ ا ایسے مواقع اتے ہیں جہاں خواتین کو پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس بہت عرصہ پہلے یہ خیال کیا گیا کہ خواتین پولیس اسٹیشن بنانے چاہیے جہاں پر ظلم کا شکار زیادتی کا شکار خواتین ہوں وہ کانفیڈنس کے ساتھ خواتین پولیس افسز کے سامنے اپنی کمپلینٹ ریکارڈ کر سکیں اور جو ایک فوجداری نظام ہے کرمنل جسٹس سسٹم کا اس کے ذریعے انصاف حاصل کر سکے ان خیالات کا اظہار انہوں نے سبی میں وومن پولیس اسٹیشن کے افتتاحی تقریب کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا اس موقع پر ڈی آئی جی پولیس سبی رینج ڈاکٹر فرحاں زاہد، ڈی آئی جی علی شیر جکھرانی، ایس ایس پی سبی میر عنایت اللہ بنگلزئی، اے ڈی آئی جی سبی میر شاہد کمال سیلاچی اور دیگر پولیس آفیسران موجود تھے آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے کہا کہ بلوچستان کے پورے صوبے میں صرف ایک وومن پولیس اسٹیشن تھا ایک سال پہلے تک جو کہ کوئٹہ میں تھا اس کے بعد اج ہم نے سبی میں وومن پولیس اسٹیشن کا افتتاح کیا ہے جو کہ پانچواں ومن پولیس اسٹیشن ہے اس سے پہلے چار خواتین کے تھانے بلوچستان میں بن چکے ہیں ایک پہلے سے کوئٹہ میں تھا جس کو اپ گریڈ کیا گیا وہاں کافی سہولیات کا اضافہ کیا گیا اس کے بعد ہم نے تربت میں پولیسی اسٹیشن بنایا پھر گوادر میں اور ایک نصیر اباد کے وومن پولیس اسٹیشن کا الریڈی نوٹیفکیشن بلوچستان کی گورنمنٹ کر دیا ہوا ہے اور اج ہم نے پانچواں پولیس اسٹیشن قائم کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ سبی میں سبی کوئٹہ اور تربت کے بعد ایک بہت ہی اہم اور تاریخی شہر ہے اور یہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہیں خواتین کی جو لٹریسی ہے اس کا بھی تناسب نسبتا بہتر ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سبی میں پولیسنگ کے لحاظ سے کافی زیادہ سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تو اس میں ایک انیشیٹو ہمیں لیا ہے تھانے کے قیام کااس سے پہلے الریڈی ہم نے خواتین کی بھرتی میں کافی زیادہ اضافہ کیا اور ایک سال کے اندر خواتین کی تعداد پولیس میں ڈبل ہو گئی ہے اور اس میں سبی سے جو امیدوار خواتین کی سیٹس کے اوپر اپلائی کیا جنہوں نے پولیس میں انے کے لیے کافی زیادہ خواہش مند تھی اور ان میں سے میرٹ کے اوپر ہمارے پاس اس وقت 40 کے قریب خواتین یہاں موجود ہیں جو کہ سبی سے تعلق رکھتی ہیں سبی کے رہنے والی ہیں یہاں کی ڈومیسائل ہیں انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے اور خواتین کے لیے ایک ایسا انیبلنگ موافق ایک ماحول پیدا کرنے کے لیے جہاں پہ وہ فورس میں سوسائٹی میں معاشرے میں کمیونٹی میں اپنا ایک بھرپور عزت کے ساتھ کردار نبھا سکیں اور اس کے لیے یہاں پہ پڑھی لکھی خواتین کی تعیناتی کی گئی ہے ان کی ٹریننگ کی گئی ہے اور ہم مزید ان کی ہیومن رائٹس کے لحاظ سے بھی ٹریننگ کرائیں گے انویسٹیگیشن بھی ٹریننگ کرائیں گے انہوں نے کہا کہ پولیس میں ان کی تعداد کو بڑھانا اور وومن پولیس اسٹیشنز کی تعداد کو بڑھانا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے میری نظر میں کہ خواتین جو ہے جس کو ہم جینڈر مینسٹی میں کہتے ہیں یعنی مردوں کے مساوی ہر وہ پولیس افسر کا رول ا ادا کر سکے جو کہ کسی اور مہذب معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے یعنی وہ انویسٹیگیشن کے طور پر انویسٹیگیٹر کے طور پہ سامنے ائیں پیٹرولنگ افیسرز ڈیوٹی افیسرز اور ایون جو پولیس کے اکاؤنٹنٹیرزم کا ڈیپارٹمنٹ ہے بلوچستان کانسٹیبلری ہے اسپیشل برانچ ہے ہر جگہ خواتین کو ہونا چاہیے اور یہ صرف وومن پولیس اسٹیشن پہ نہیں ہونا چاہیے تو اپ دیکھیں گے کہ یہ ایک شروعات ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق کم از کم پانچ پرسنٹ کا کوٹا ہے خواتین کی وردی کا کئی لوگ اس کو غلط انٹرپریٹ کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید پانچ پرسنٹ سے زیادہ نہیں ہو سکتی حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون بنانے کا مقصد یہ تھا کہ کم از کم کی تعداد ہو کہ پانچ پرسنٹ یا کم نہیں ہو سکتی اس سے زیادہ ہمیشہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایکول اپرچونٹیز ہیں پاکستان کے کانسٹیٹیوشن ہیں تو یہ کوٹا اس لیے رکھا گیا کہ اگر ان کی کوالیفکیشن کے لحاظ سے وہ اس میرٹ پہ نہ بھی اتی ہوں تو بھی پانچ پرسنٹ افرتھی کر لیں لیکن جو میرٹ پہ اتی ہیں وہ پانچ پرسنٹ سے زیادہ ہو سکتی ہیں اور یہی سی ایس ایس کے تھرو جو پی ایس پی افیسرز آ رہے ہیں وہ ابھی ان کے لیے مخصوص کوٹا تھا اس سے زیادہ بھی میرٹ پہ ا رہی ہیں اور وہاں بھی بہتری ائی ہے یہاں پہ بھی ایک چونکہ پہلے اس کو سمجھا جا رہا تھا کہ شاید پولیس ایک ایسا ڈیپارٹمنٹ ہے جہاں صرف مرد کام کر سکتے ہیں لیکن اب ایک ایسا انوائرمنٹ بنایا جا رہا ہے جہاں خواتین کے لیے وہاں کام کرنا اسان ہو انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف خود کو کسی اسٹیشن تک محدود رکھے بلکہ اس سے اگے جا کے جو عام تھانے ہیں ان کے اوپر انویسٹیگیٹنگ افیسر کے طور پہ ڈیوٹی افیسر کے طور پر بھی کام کریں انہوں نے کہا کہ میں خواتین کو یہاں ایس ایچ او اور ایڈیشنل ایس ایچ او کی جو اسامیاں ہیں وہاں پہ تعینات کرنے کا خواہش مند ہوں جیسے ہی یہ مزید ٹریننگ کر کے اور سینیئر ہو جاتی ہے اور تو انشاء اللہ ا ہم ان کو جو عام تھانے ہیں ان پہ بھی ان کے قابلیت کے مطابق ایس ایچ او تعینات کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے