بلوچستان ہائیکورٹ نے سلو میٹر/پی یو جی چارجز،آدر چارجز کو غیر قانونی قرار دئیے

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے سوئی سدرن گیس کمپنی کے صارفین کو بلوں میں بھیجے جانے والے سلو میٹر/پی یو جی چارجز،آدر چارجز کو غیر قانونی قرار دئیے جانے کے بعد فکسڈ چارجز کی مد میں کروڑوں روپے کے اضافی بل بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس نے صارفین کو سیخ پا کر دیا ہے صارفین کی بڑی تعداد فکسڈ چارجز کی شکایات کے ساتھ کمپنی کے ریجنل آفس کوئٹہ آتے ہیں تو کمپنی حکام انہیں بل ادا نہ کرنے اور ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواست کا فیصلہ آنے کا مشورہ دے کر کام چھڑاتے ہیں تفصیلات کے مطابق گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی سوئی سدرن گیس کمپنی نے عوام کو لوٹنے کیلئے فکسڈ چارجز کے نام سے نئے چارجز متعارف کروا دئیے ہیں اس مد میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صارفین کو بھاری بھر کم بل بھیج دئیے گئے ہیں جن کی شکایات لگانے والوں کی کمپنی میں قطاریں لگ چکی ہیں مگر ان کی کوئی داد رسی نہیں کی جا رہی بلکہ حسب سابق انہیں سید نذیر آغا ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر آئینی درخواست کا فیصلہ آنے تک بل جمع نہ کرانے کا مشورہ دے کر جان خلاصی کی جاتی ہے۔سوئی سدرن گیس کی جانب سے صارفین کو بلوں میں بھیجے جانے والے فکسڈ چارجز سے متعلق گزشتہ سماعت پر درخواست گزار اور کمپنی کے وکلا کے دلائل مکمل کر لئے گئے تھے بلکہ ہائی کورٹ کے بنچ میں شامل معزز ججز نے فیصلہ سنانے کا بھی عندیہ دیا تھا مگر 21 دسمبر کو مذکورہ آئینی درخواست کی سماعت نہ ہوسکی صارفین کی امیدوں کا محور ایک بار پھر بلوچستان ہائی کورٹ ہے ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کمپنی سے گزشتہ فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے اور بدستور سلو میٹر چارجز اور آدر چارجز کی مد میں صارفین سے وصول کئے جانے والے غیر قانونی چارجز کی واپسی نہ کرنے پر وضاحت طلب کی جائے کیونکہ مذکورہ چارجز کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران سابق جنرل مینیجر مدنی صدیقی نے موقف اختیار کیا تھا کہ سلو میٹر چارجز اور آدر چارجز شک کی بنیاد پر بھیجے جا رہے ہیں اگر صارفین بے قصور ثابت ہوئے تو انہیں مذکورہ چارجز کی مد میں وصول کی گئی رقوم بلوں میں کمپنی سے منہاں کی جائے گی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا صارفین کا کہنا ہے کہ کمپنی صارفین کو مختلف چارجز بلوں میں شامل کر کے لوٹ رہی ہے اور اس بابت بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا جو مایوس کن ہیں انہوں نے کہا کہ ایک طرف کمپنی حکام گیس جیسی مدنی دولت کے زیر زمین ذخائر کے تیزی سے کم ہونے کا رونا روتی ہے اور دوسری جانب صارفین کی جانب سے کم گیس کے استعمال پر ان پر نے نئے چارجز عائد کئے جارہے ہیں جو مایوس کن ہے انہوں نے ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بابت فیصلہ صادر فرما کر کمپنی کو اس کا پابند بنائے اور صارفین سے وصول کئے گئے رقوم واپس کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے