نگران وزیراعظم بمقابلہ قائداعظم

تحریر: نذر حافی
یہ زمانہ نظریاتی جنگوں کا ہے۔ اب نظریات تبدیل کرکے اپنے اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے بھی قائداعظم کے نظریات پر ہاتھ رکھا ہے۔ اُن کی بات کو عام آدمی کہاں سمجھے گا۔! دراصل انہوں نے قائد اعظم کے نظریات سے اختلاف کرنے کو کفر نہ ہونے کی سند عطا کی ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے اور ہمارے ہاں یہ کوئی نیا کام بھی نہیں۔ پہلے کُفر یا اسلام کی تشخیص دینے کا یہی کام ہمارے ہاں کے مولوی اور مفتی حضرات کیا کرتے تھے۔ اتفاق تو ملاحظہ کیجئے کہ ماضی میں مفتی حضرات نے قائداعظم کو کافرِ اعظم کہہ کر یہی کام کیا، لیکن وہ قائداعظم کو پاکستان بنانے سے نہ روک سکے۔ ساری قوم قائداعظم کے گِرد جمع ہوگئی اور پاکستان بن گیا۔ اب اِن دنوں میں قائدِاعظم کو کافرِ اعظم کہنے کا تو دشمن کو کوئی فائدہ نہیں، لہذا اب لوگوں کے اذہان میں قائداعظم کے نظریات سے اختلاف کرنے کا بیج بویا جا رہا ہے۔

جب لوگ قائداعظم کے گِرد آج بھی جمع ہیں اور سارا پاکستان بابائے قوم کے نام پر متحد ہے تو پھر دشمن کیلئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو قائدِ اعظم کے نظریات کے خلاف اُٹھنے کی ترغیب دے۔ جب ملک کا سب سے بڑا منصب دار یہ کہے کہ "قائداعظم کے نظریات سے اختلاف کُفر نہیں” تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک جملے کے پیچھے ہوم ورک مکمل ہوچکا ہے۔ اس جملے کو عوامی بیانیہ بنانے کیلئے اگر مکمل منصوبہ بندی نہ کی گئی ہوتی تو ریاستی اکائیاں اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے فوراً حرکت میں آجاتیں۔ آپ نے دیکھا کہ قائداعظم کے نظریات پر حملہ ہونے کے حوالے سے اُتنا ردِّعمل بھی سامنے نہیں آیا، جتنا گذشتہ دنوں میں کسی فوجی بنگلے پر حملے کے بعد دیکھنے کو ملا تھا۔ کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ کسی طرف سے کوئی نوٹس، کوئی احتجاج یا کوئی اختلافی نوٹ تک سامنے نہیں آیا۔

گویا ریل اپنے سارے ڈبوّں سمیت اپنی پٹڑی پر آگے کی طرف دوڑ رہی ہے۔ آگے کیا ہے؟ آگے قومی وحدت کا خاتمہ اور اختلاف ہی اختلاف۔ لوگ قائداعظم کے نظریات سے اختلاف کریں گے تو تب ہی صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں بے لگام ہونگی۔ یعنی ہمارے پالیسی میکرز ایک مرتبہ پھر سانحہ بنگلہ دیش کی طرح کا ایک اور کارنامہ انجام دینے کے درپے ہیں۔ اب قائداعظم کے نظریات کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا گیا ہے۔ جلد ہی قلم، تصویر، رنگ روشنی، آواز اور کیمرے کی دنیا کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملے گا۔ پھر سے، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا۔ اب سانحہ بنگلہ دیش کی مانند قائداعظم کے نظریات کے خلاف پاکستان میں ہی ایک مرتبہ پھر جہاد ہوگا۔ جو آدمی قائداعظم کی فلسطین پالیسی یا کشمیر پالیسی پر ڈٹنے کی بات کرے گا تو اُسے قتل یا اغوا کرنا بھی کوئی کفر نہیں ہوگا۔

ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم اور اعلیٰ دانشور شخصیت انوار الحق کاکڑ صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ "اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سوچ بچار کرکے قائداعظم کی رائے سے مختلف نتیجے پر پہنچتی ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، تاہم اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ یہ ہونا چاہیئے یا نہیں۔” اب یہ واضح ہے کہ جو آدمی قائداعظم کی فلسطین پالیسی کے مطابق تقسیم فلسطین باالفاظِ دیگر دو ریاستی حل کی مخالفت کرے گا یا تقسیم کشمیر کی مخالفت کرے گا تو اُسے قتل کرنا یا اغوا کرنا بھی کوئی کفر نہیں ہوگا۔ تاہم اس پر بحث ہوتی رہے گی کہ یہ ہونا چاہیئے یا نہیں۔

ممکن ہے کوئی یہ سوچے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بابائے قوم کے نظریات کے خلاف ایکا کر لیں۔! یہ امکان تو کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ ہمارے نگران وزیراعظم نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ باقی تھوڑی سی اپنے ملک کی تاریخ اور مسلمانوں کی تاریخ کو بھی اسی امکان کے ساتھ جوڑ لیں۔ آپ کو خود سمجھ آجائے گی کہ اب ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو کِن حالات کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔ اگر آپ کو سوچنے کی عادت ہے تو آج ہی یہ سوچ لیجئے کہ وہ وقت کیسا ہوگا کہ جب ہم قائداعظم کے نظریات کے خلاف اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اور جس دن ہم بابائے قوم کے فرمودات کی مخالفت کرکے کشمیر کو تقسیم کر دیں گے۔ جس دِن ہم کشمیر کو تقسیم کریں گے، وہ دِن ہر پاکستانی اور ہر کشمیری کیلئے کیسا ہوگا!؟؟؟ ذرا محسوس کیجئے!

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ نگران وزیراعظم بمقابلہ قائداعظم کھڑے ہوگئے۔ 1947ء میں علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات نے پاکستان کے دشمنوں کو شکست دی تھی۔ 1971ء میں ہم نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒکے نظریات کی مخالفت کرکے خود شکست کھائی تھی۔ آج پھر ہمارے درمیان نظریات کی جنگ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات کی مخالفت کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں یا قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے نظریاتی وارث اور نظریاتی بیٹے فتح یاب ہوتے ہیں۔!!! بقولِ اقبال:
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدر کرار بھی ہے
پیر مے خانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ
سُست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے