گرفتاری کے بعد لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں،اس معاملے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ مارچ کے شرکا کی گرفتاری کے کیس میں آئی جی اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہو گئے ہیں چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ آپ نے کچھ لوگ گرفتار کئے ہیں۔ کیوں؟ آئی جی پولیس نے کہا 25 دن سے بلوچ احتجاج کر رہے ہیں، انھیں کچھ کہا نہیں گیا مگر کل آٹھ دس گاڑیوں میں مزید شرکا آئے، جن میں سے کچھ مسلح تھے۔ ان کو چھ گھنٹے کچھ نہیں کہا، جب انھوں نے ریڈ زون کی طرف جانے کی کوشش کی اور پولیس پر پتھراو کیا تو پولیس نے مزاحمت کی۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ اکبر ناصر نے عدالت کو بتایا کہ ’مظاہرین نے چھے گھنٹے تک سٹرک بلاک کیے رکھی جبکہ انھیں کہا گیا تھا کہ وہ ترمولی کے پاس جگہ ہے وہاں پر چلے جائیں مگر انھوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سکیورٹی کے حالات کی وجہ سے مظاہرین کو ڈی چوک میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کا کہنا تھا کہ احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔

آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ کی وجہ سے مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں کوئی خاتون نہیں ہے اور جن خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا ان کو رہا کردیا گیا ہے۔آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ان مقدمات میں دو سو پندرہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ جن افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں وہ ناقابل ضمانت دفعات کے تحت درج ہوئے ہیں؟عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیسے نہتے مظاہرین نے پولیس والوں پر حملہ کیا اور ان سے اشیا بھی چھین لیں۔

انھوں نے کہا کہ کیا بلوچستان سے آئے ہوئے مظاہرین کیا اسلام آباد پولیس پر حملہ کرنے کے لیے آئے تھے آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ جن ستر خواتین اور بچوں کو حراست میں لیا گیا ان کو رہا کردیا گیا ہے اور جہاں وہ جانا چاہیں گے انھیں وہاں بھیجا جائے گا۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایسی بے شمار رپورٹ آئی ہیں کہ گرفتاری کے بعد لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں انھوں نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار کی وکیل کے ساتھ تعاون کریں اور ان افراد کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرین جنھیں ان مقدمات میں حراست میں لیا گیا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں زیادہ تر افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے جبکہ کچھ کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا گیا ہے تاہم عدالت کو یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے لوگ جوڈیشل ریمانڈ ہر ہیں اور کتنے پولیس کی تحویل میں ہیں۔عدالت نے اس درخواست کی سماعت جمعے تک کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے درخواست گزار کی وکیل کو حکم دیا گیا کہ وہ ایس ایس پی انوسٹیگیشن کے ساتھ رانطے میں رہیں کیونکہ انھوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ خواتین گرفتاری کے بعد لاپتہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے