بلوچستان سے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے، سردار یار محمد رند

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)سینئر سیاستدان ورند قبیلے کے سربراہ سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ میں نے تحریک انصاف 9 مئی واقعات کی وجہ سے نہیں بلکہ عمران خان کے رویے کی وجہ سے چھوڑی، ماضی میں لوگ اپنے نظریے کے لیے 40،40 سال جیلوں میں رہے، لیکن کچھ لوگوں کی مثال بھیڑ بکریوں کی طرح ہے، جو چراواہے کے حکم پر چلتی ہیں بلوچستان سے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے، یہاں جس طرح کرپشن کی گئی اور جس بے دردی سے لوٹا گیا میرا نہیں خیال کہ یہاں سے احساس محرومی ختم ہوگا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنے بیان میں کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی کو اس وقت چھوڑا جب صوبائی وزیر ہونے کے ساتھ وزیراعلی کا خصوصی مشیر بھی تھا، اب میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سردار یار رند نے کہا کہ میں عمران خان کی باتوں سے متاثر ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا، جب پارٹی میں آیا تو حقیقت پتا چلی، خصوصا عمران خان کے رویے کی وجہ سے بہتر سمجھا کہ اس پارٹی سے علیحدہ ہو جاں۔انہوں نے کہاکہ عمران خان کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہ روایتی سیاستدانوں سے ذرا ہٹ کر سیاست میں تبدیلی لائیں گے لیکن ایسا نا ہو سکا۔ بانی پی ٹی آئی کی سیاست صرف سوشل میڈیا کی حد تک تھی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ احتجاج کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کا حق ہوتا ہے لیکن 9 مئی کو جو کچھ کیا گیا وہ احتجاج نہیں تھا، پی ٹی آئی کا لیڈر گرفتار ہوا تھا تو کارکنان کو چاہیے تھا کہ پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کریں لیکن وہ کہیں اور چلے گئے۔بلوچستان کے سیاسی رہنماں کی دوسری پارٹیوں میں شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے سردار یار رند نے کہا کہ بلوچستان کے یہ لوگ تھوڑے سے فائدے کے لیے دوسری جماعتوں میں چلے جاتے ہیں، مجھے بحیثیت ایک بلوچ کے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، ماضی میں لوگ اپنے نظریے کے لیے 40،40 سال جیلوں میں رہے، لیکن کچھ لوگوں کی مثال بھیڑ بکریوں کی طرح ہے، جو چراواہے کے حکم پر چلتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ کل کو اگر کوئی نئی جماعت بنے گی تو یہی نمائندے اقتدار کے لیے اس جماعت کا رخ کر لیں گے، یہ نا ہی بلوچستان کی قبائلی روایات ہیں اور نہ سیاسی روایات ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں احساس محرومی کل بھی تھا اور آج بھی ہے، یہاں کچھ سیاسی رہنما ایسے ہیں جن کا ہر بار قائد کوئی اور ہوتا ہے۔سردار یار رند نے کہاکہ بلوچستان سے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے، یہاں جس طرح کرپشن کی گئی اور جس بے دردی سے لوٹا گیا میرا نہیں خیال کہ یہاں سے احساس محرومی ختم ہوگا۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت میں میرے پاس تعلیم کی وزارت تھی، میرا ایک 7 ارب کا منصوبہ تھا جس کے لیے ابتدائی طور پر 4 ارب روپے چاہیے تھے، اس منصوبے کے تحت صوبے کے ہر ضلع میں کیڈٹ کالج اور ہر ڈویژن میں گرلز کیڈٹ کالج بننا تھا، میں نے دن رات محنت کی لیکن جام کمال نے عین وقت پر منصوبے کو ڈراپ کر دیا اور میں نے اسی روز اپنا استعفی پیش کر دیا تھا۔سینیئر سیاستدان نے کہاکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے مجھے اپنا معاون خصوصی بنایا تھا لیکن میں نے وہ عہدہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ میرا موقف تھا کہ آپ نے مجھے نام نہاد وفاقی وزیر کا عہدہ دیا ہے لیکن آپ مجھ سے کام نہیں لے رہے، اسی لیے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے عہدہ چھوڑ دیا تھا۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی جانب سے شمولیت کے لیے رابطہ کیا گیا جس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان پارٹیوں کو صرف بلوچستان کا نام چاہیے ہم بلوچستان والے نہیں۔سردار یار رند نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں میرا ان جماعتوں کی جانب جانا فضول ہو گا، وہاں جاکر اپنا وقت ہی ضائع کروں گا۔ اگر وہ یہاں آکر بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی بات کریں تو ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ میری بلوچستان میں ایک حیثیت ہے اور میرے حلقے کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لوں۔ ابھی تک جو حالات میں اس میں یہی نظر آ رہا ہے کہ میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لوں گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلوچستان سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے امیدواروں کا بھی اتحاد ہونا چاہیے۔سردار یار رند نے کہاکہ بلوچستان میں ہمیشہ سے ہی مخلوط حکومت بنتی آئی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے