بلوچ نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ اب تشویش ناک بنتا جارہا ہے، نذیر بلوچ
سوراب(ڈیلی گرین گوادر) تربت میں مبینہ مقابلے میں نوجوانوں کے قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے تربت تا کوئٹہ لانگ مارچ کے شرکا خضدار سے سوراب پہنچ گئے، سوراب میں شرکاء کے استقبال کے لئے تین مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے تھے، بلوچ یکجہتی لانگ مارچ میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شریک تھے،سوراب پہنچنے پر بی ایس او کے سابق چیئرمین نذیر بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان نیشنل پارٹی، بی ایس او کے کارکنان سمیت سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور مختلف طبقات فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں لانگ مارچ کے شرکاء کا استقبال کیا، نصیر خان نوری چوک پر شرکاء دھرنا دے کر بیٹھ گئے، اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے نذیر بلوچ، لاپتہ سیف اللہ رودینی کی بہن فرذانہ بلوچ، گلزار بلوچ اور آفتاب بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ اب تشویش ناک بنتا جارہا ہے، ہزاروں لاپتہ افراد کے لواحقین کئی سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرکے دہائیاں دے رہے ہیں مگر ریاست لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے انہیں مار کر ان کی لاشیں پھینک رہی ہے، جو عالمی انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے، اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو انہیں کسی عدالت میں پیش کرکے اس پر مقدمہ چلایا جائے، جعلی مقابلے کے نام پر انہیں مار کر بے بنیاد الزامات لگانا کہاں کا انصاف ہے؟ تربت میں بالاچ مولا بخش کا قتل اس اجتماعی نسل کشی کا سلسلہ ہے جو ریاست کی سرپرستی میں بلوچستان میں چل رہا ہے، بلوچ قوم اب مزید یہ ظلم برداشت نہیں کرے گی، بعد ازاں لانگ مارچ کے شرکاء سوراب سے کوئٹہ کے لئے روانہ ہوگئے۔