ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں نظام کو تبدیل کرنے کی بجائے نالیاں بنانے کو ترجیح دے رہی ہیں، نوابزادہ لشکری رئیسانی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)1973ء کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے لئے بننے والی کمیٹی کے رکن سینئر سیاست دان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم 14 مئی 2006 کو لندن میں سیاسی قیادت کے درمیان ہونے والے اتحاد برائے بحالی جمہوریت کا نتیجہ تھی، آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ سیاسی جماعتیں اگر اپنے عوام اور ملک کیساتھ سنجیدہ ہیں تو ایک نئے میثاق اور صاف شفاف انتخابات کے اصولوں کے تعین کیلئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرکے نئے ضابطہ کا اعلان کریں، یہ بات انہوں نے گزشتہ روز سراوان ہاوس میں سیاسی کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم 14 مئی 2006 کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے اتحاد برائے بحالی جمہوریت اے آر ڈی کا نتیجہ ہے وہ خود بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا حصہ تھے جس میں یہ طے پایا تھا کہ 1973 کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا جسے مشرف حکومت نے 12 اکتوبر 1999ء کو معطل کیا تھا، انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بننے والی حکومت نے مذکورہ معاہدہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرکے صوبوں کو خودمختار کیا۔ تاہم بعد میں اٹھارہویں آئینی ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عملدآمد نہ ہونے سے بلوچستان کی غربت و بے روزگاری میں اضافہ ہوا، انہوں نے تجویز دی کہ ایک نئے میثاق اور صاف شفاف انتخابات کے حوالے سے اصولوں کے تعین کیلئے سیاسی جماعتیں آل پارٹیز کانفرنس طلب کرکے ایک نئے ضابطہ کا اعلان اور تمام سیاسی جماعتوں کو طے پانے والے اصولوں پر عملدرآمد کا پابند کیا جائے اقتدار تک پہنچنے کیلئے ڈیل یا الیکٹیبلز کو سیڑھی بنانا عوام کے ساتھ بددیانتی ہے،ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں نظام کو تبدیل کرنے کی بجائے ٹرانسفر، پوسٹنگ اور نالیاں بنانے کو ترجیح دے رہی ہیں، پارلیمنٹ نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا، اسٹیٹس کو آج بھی برقرار ہے، جس کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے،سیاسی کارکن جمہوری نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں،انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر اب بھی ایسے سیاسی کارکن موجود ہیں جو سماج کو تبدیل اور صوبے میں ایک حقیقی سیاسی عمل کیلئے جدوجہد کررہے ہیں،انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ہی ملک میں آئین بالادست، پارلیمنٹ خودمختار عام عوام کی زندگی بہتر ہوگی اورتمام معاملات کو قانون سازی کے ذریعے ہی ٹھیک کیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں ملک اورعوام کے ساتھ سنجیدہ ہیں تو ایک مرتبہ پھر سے مل بیٹھ کر ایک نیا ضابطہ اخلاق تشکیل دیں تاکہ ملک اور صوبوں کو درپیش بحرانوں سے نکالا جاسکے۔